[]
1964 کے ایک فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس بی آر گوئی، جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس پرشانت کمار مشرا کی بنچ نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ غیر قانونی بھیڑ بنانے والے ہر ایک شخص نے سرگرم کردار نبھایا ہو۔
سپریم کورٹ نے ایک معاملے کی سماعت کے دوران کہا کہ بھلے ہی کسی شخص نے کسی پر حملہ نہ کیا ہو، لیکن اگر وہ شخص پرتشدد بھیڑ کے ساتھ ہے تو سزا ضرور ملے گی۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ یہ قانون کا ایک نکتہ ہے جسے 1964 میں ہی طے کر دیا گیا تھا۔ 1964 کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس بی آر گوئی، جسٹس بی وی ناگرتنا اور جسٹس پرشانت کمار مشرا کی بنچ نے کہا کہ یہ واضح طور سے دیکھا جا سکتا ہے کہ آئینی بنچ نے مانا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ غیر قانونی بھیڑ بنانے والے ہر شخص نے سرگرم کردار نبھایا ہو۔ لیکن اس کی موجودگی کو لے کر آئی پی سی کی دفعہ 149 کی مدد سے اسے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
دراصل سپریم کورٹ کی بنچ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کر رہی تھی۔ اس فیصلے میں ہائی کورٹ نے عرضی دہندگان کی آئی پی سی کی دفعہ 302 کے تحت تاحیات جیل کی سزا کو برقرار رکھا تھا۔ اپیل کرنے والوں کو بھینس سے جڑے ایک تنازعہ میں پرتشدد تصادم کے دوران بھیڑ کا حصہ بننے پر قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ ان لوگوں کے گروپ نے ایک شخص کا قتل کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 1964 میں ’مسلٹی بنام یو پی ریاست‘ کیس کا ذکر کیا تھا۔ 1964 میں ایک آئینی بنچ نے کہا تھا کہ آئی پی سی کی دفعہ 149 بتاتی ہے کہ اگر کسی بھیڑ کے ایک رکن نے ہی جرم کیا ہے اور بھیڑ کے باقی لوگ اس جرم میں براہ راست شامل نہیں ہیں، لیکن ان کو پہلے سے یہ پتہ ہے کہ کیا جرم ہونے کا امکان ہے، تو بھیڑ کے ہر شخص کو قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;