[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اس وقت عالمی میڈیا اور بین الاقوامی مبصرین لبنان میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی تقریر کے مواد اور موضوعات پر توجہ دے رہے ہیں اور اس بارے میں قیاس آرائیاں شدت اختیار کر رہی
ہیں۔
صہیونی اخبار “ہاریٹز” نے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کی تقریر کے مواد کے لیے 3 ممکنہ منظرنامے بیان کیے ہیں۔
پہلے منظر نامے میں ہاریٹز سید حسن نصر اللہ کی تقریر کے بارے میں لکھتا ہے: “ان کی تقریر ایک عمومی بیان ہو گی جس میں جنوبی اور شمالی محاذوں میں ہونے والی سیاسی اور عسکری پیش رفت کی وضاحت کی جائے گی اور اس بات پر زور دیا جائے گا کہ فتح غزہ کے عوام کو حاصل ہوگی۔
البتہ یہ منظرنامہ غزہ کی پٹی میں مزید تباہی اور ہلاکتوں کا باعث بنے گا جس سے حزب اللہ کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔”
دوسرے منظر نامے میں اخبار نے لکھا ہے کہ “نصراللہ کی تقریر اعلیٰ سطح کی ہوگی جس میں وہ ریڈلائنز کا تعین کریں گے کہ اگر اسرائیل انہیں عبور کرتا ہے تو حزب اللہ جنگ میں کود جائے گی یا پھر شمالی علاقوں میں تصادم کو نمایاں طور پر بڑھا دے گی۔” یہ سب سے زیادہ امکانی منظرنامہ ہے۔”
مذکورہ صہیونی روزنامہ تیسرے منظر نامے کو “آرماگیڈون منظرنامہ” بتاتے ہوئے اس کے بارے میں مزید لکھتا ہے کہ “حسن نصر اللہ اپنی تقریر کے پہلے ہی منٹوں میں اعلان کریں گے کہ میزائل اب تل ابیب کی طرف بڑھ رہے ہیں اور رضوان(اسپیشل سروس گروپ) کی فوجیں الجلیل میں داخل ہو چکی ہیں۔ اگرچہ اس منظر نامے کا امکان نہیں ہے لیکن اسرائیلی سیکیورٹی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سالوں سے اس منظر نامے پر غور کر رہی ہے۔
اخبار نے لبنان کی حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کی تقریر کی اہمیت اور صیہونی رجیم کے تمام عہدیداروں کے اس سلسلے میں بے چینی سے انتظار کے بارے میں کہ سید حسن نصر اللہ کیا کہیں گے لکھا ہے: “ایک بدنام سیاسی قیادت، ایک ایسی فوج جو جنگ کے لیے تیار نہیں ہے اور ایک گہرے داخلی انتشار سے دوچار اسرائیل آج اپنے قیام کے بعد کے سب سے بدترین اور خوفناک خواب کا سامنا کر رہا ہے اور ہم بادل ناخواستہ اس بات کے منتظر ہیں کہ جمعہ کے دن کوئی مرد(سید حسن نصراللہ) کیا کہے گا!۔”
واضح رہے کہ اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ “ہم سید حسن نصر اللہ کی تقریر کا انتظار کر رہے ہیں۔” تاہم ہمارا ان کے لیے اور ہر دوسرے فریق کے لیے پیغام ہے کہ وہ تنازعات کا دائرہ وسیع نہ کریں۔ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اسرائیل کو اپنے دفاع سے نہیں روکتی اور اس کا مطلب کشیدگی یا جنگ کا خاتمہ بالکل نہیں ہے۔