[]
مہر خبررساں ایجنسی، ثقافتی و ادبی گروپ _ الناز رحمت نژاد: لیلیٰ خالد 1944 میں فلسطین کے ساحلی شہر حیفہ میں پیدا ہوئیں۔ یہ شہر دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ نے اسرائیل کو دے دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد لیلیٰ کے والد حیفہ میں سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے اور ان کا خاندان لبنان کے ایک مہاجر کیمپ میں چلا گیا۔
15 سال کی عمر میں لیلیٰ نے مسلح جدوجہد کرنے مزاحمت تحریک میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا جو بعد میں “پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین” کے نام سے مشہور ہو گئی۔
لیلیٰ خالد اپنے معصوم چہرے کے ساتھ سر پر دوپٹہ اوڑھے قوم کی مزاحمت کی علامت بن چکی تھی۔ وہ صیہونیوں کے قبضے میں ذلت آمیز زندگی نہیں گزارنا چاہتا تھی۔ نوجوان لیلیٰ بہت جلد دنیا بھر کے نشریاتی حلقوں میں مزاحمتی ستارے کے عنوان سے جگہ پا چکی تھی۔
لیلیٰ خالد کا نام پہلی بار عالمی میڈیا میں اس وقت سامنے آیا جب 29 اگست 1969 کو وہ اس گروپ کا حصہ بنی جس نے روم سے ایتھنز جاتے ہوئے بوئنگ 707P-840TW طیارے کو ہائی جیک کر کے اسے دمشق میں اتارا۔
اس ہائی جیکنگ آپریشن میں لیلیٰ کے حکم پر طیارے کا رخ مقبوضہ فلسطین کی طرف موڑ دیا گیا۔ جب جہاز شہر کے اوپر سے گزرا تو لیلیٰ اور ساتھیوں خوشی سے جھوم اٹھے کیونکہ طیارہ ایک ایسے شہر کے اوپر سے گزر رہا تھا جہاں انہیں اپنی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہی شہر جو ان کی اور ان کے آباؤ اجداد کی جائے پیدائش تھا۔ لیکن یہ غاصب صیہونیوں کے قبضے میں تھا اور اسرائیلی قابض فوج کے ہاتھوں بے گھر ہونے والے فلسطینی پناہ گزینوں کو نہ صرف خود بلکہ ان کی لاشیں بھی فلسطین واپس آنے کی اجازت نہیں تھی۔
لیلی خالد نے 11 فروری 2018 کو انقرہ میں “امید، ہمت اور عزم” کے عنوان سے منعقدہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی تیسری کانگریس میں پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کی سنٹرل کونسل کی رکن کی حیثیت سے شرکت کی۔
لیلیٰ خالد نے پرہجوم کانگریس ہال میں حاضرین سے کہا: “قیدیوں کی کوئی شناخت نہیں ہوتی۔” دنیا بھر کی جیلیں ایک جیسی ہیں جو آزادی اور جمہوریت کو روکنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ ہم نے یہ سب فرانسیسی بلیک ہولز میں سیکھا۔ ہم آپ کے ساتھ یکجہتی کے طور پر دنیا کی تمام جیلوں کو تباہ کر دیں گے اور ان کی جگہ اسکول اور ثقافتی مراکز قائم کریں گے۔
جہاں بھی استعمار ہے، جہاں ظلم و تشدد ہے وہاں مزاحمت مضبوط ہوگی۔ آپ مزاحمت کر رہے ہیں۔ آپ استعمار کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی آواز ہیں۔ میں فلسطین کے مزاحمت پسند عوام کی طرف سے آپ کو سلام پیش کرتی ہوں۔ ہم عفرین کی جنگ کے خلاف بھی آواز بلند کرتے ہیں۔ جنگیں زندگی کی توسیع نہیں بلکہ موت کا باعث بنتی ہیں۔ البتہ یہ انسان ہیں جو زندگی کو مستقبل بخشتے ہیں۔ میں اس ہال میں موجود مزاحمت کرنے دلاوروں کو سلام پیش کرتی ہوں۔
مزاحمت کی بے مثال تاریخ رقم کرنے والی لیلا خالد آج چھیاسی سال کی عمر میں اپنے دو بیٹوں کے ساتھ اردن میں پناہ گزینی کی زندگی گزار رہی ہیں لیکن ابھی تک فلسطینی رومال کا اسکارف پہنے اپنے آبائی وطن واپسی کے لئے مزاحمت کے خواب سجائے آزادی کی سحر کی تلاش میں ہیں۔
یہاں غاصب اسرائیلی رجیم کے حامی مغربی ذرائع ابلاغ کی فتنہ پردازی اور دسیسہ کاری بھی ملاحظہ ہو کہ بی بی سی کی ویب سائٹ نے نہایت بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے “خواتین کی دہشت گرد گروہوں میں شمولیت کی ترغیب” کے بارے میں ایک مضمون میں فلسطینی مزاحمت کار لیلیٰ خالد کا موازنہ داعش میں شامل ہونے والی خواتین سے کیا۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کی رکن لیلیٰ خالد کی تصویر فلسطین، مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر کے حریت پسندوں اور بیدار ضمیروں کے درمیان اپنی سرزمین پر قبضے کے خلاف فلسطینی جدوجہد کی پہچان بن گئی ہے۔
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کی اصطلاح کے بارے میں بی بی سی شرمناک حد تک دوہرے معیار کا مرتکب ہو رہا ہے۔ جس کی رو سے وہ لوگ بھی دہشتگرد کہلاتے ہیں جو اپنی جانوں، گھروں اور زمینوں کے دفاع کے لیے غاصبوں سے لڑتے ہیں۔
11 ستمبر کے حملوں کے بعد “دہشت گردی” کی اصطلاح کے معانی اور مثالوں پر دنیا بھر میں تنازعہ بڑھ گیا ہے۔
بہت سی حکومتیں اپنے مخالفین پر دہشت گردی کا ناجائز لیبل لگانے کی کوشش کرتی ہیں۔