[]
حیدرآباد: بنی اسرائیل کی سرشت میں ظلم و زیادتی ہی ہے۔ اس قوم کی ساری تاریخ میں کہیں خیر و شرافت دکھائی نہیں دیتی۔
نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے بے انتہا مظالم کیخلاف 57 مسلم ممالک بھی بے بس نظر آتے ہیں اس کے باوجود فلسطینی عوام‘ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے تھکتے دکھائی نہیں دیتے۔
اقوام عالم کو یہ جان لینا چاہئے کہ مسلم امہ کے نزدیک مرتبہ شہادت ایک عظیم شرف ہے اور وہ اللہ کی راہ میں خوشی خوشی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتی آئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار عمائدین ملت نے دارالسلام میں غزہ فلسطین میں اسرائیلی مظالم کے خلاف کل جماعتی احتجاجی جلسہئ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر صدر مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد بیرسٹر اسد الدین اویسی نے فلسطینی عوام کی حمایت اور اسرائیلی مملکت کی جارحیت کے خلاف ایک قرارداد پیش کی جس کو نعرہئ تکبیر کی گونج میں منظور کیا گیا۔ اس قرارداد میں فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضے کی برخاستگی کے لئے فلسطینیوں کی دہوں سے جاری جدوجہد کی کھلی تائید کی گئی۔
اس قرار داد میں کہا گیا کہ فلسطین کے حصوں پر مئی 1948 ء میں قبضہ کیا گیا اور مابقی حصوں پر جون 1967 میں قبضہ کیا گیا۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے فلسطینی عوام کو خود ارادیت‘ قومی آزادی اور قومی آزادی کا ناقابل تنسیخ حق حاصل ہے۔ انہیں قبضہ کے خلاف ہر طرح سے مزاحمت کرنے اور اپنی زمین کو غیر قانونی قبضہ سے نجات دلانے کی کوششیں کرنے کا حق حاصل ہے۔
غزہ دنیا کا سب سے بڑا نظربندی کیمپ ہے جو 2006 ء سے اسرائیلوں کے جارحانہ قبضہ میں ہے اور زمینی و سمندری محاصرہ میں ہے۔ غزہ کے 20 لاکھ عوام مسلسل انسانی آفت میں مبتلا ہیں۔ قرارداد میں مسجد اقصیٰ کے کمپاؤنڈ کی بے حرمتی کرنے اور مسلمانوں کی تین مقدس سرزمین میں سے ایک پر عبادت پر تحدیدات عائد کرنے اسرائیلی کوششوں کی مذمت کی گئی۔
علاوہ ازیں مقبوضہ علاقوں میں مساجد اور گرجا گھروں کو نشانہ بنانے پربھی اسرائیل کی مذمت کی گئی۔ وزیر داخلہ تلنگانہ جناب محمد محمود علی نے کہا کہ بھارت راشٹر سمیتی‘ فلسطینی عوام کے حقوق کے لئے ان کی جاری جدوجہد کی حمایت کرتی ہے اور حکومت ہند سے نمائندگی کرتی ہے کہ فلسطینی عوام کے حقوق کے لئے اقوام متحدہ کی منظورہ قرارداد پر عمل آوری کے لئے عالمی برادری کو آمادہ کرنے کے اقدامات کرے۔
انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر مسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے انہیں اس پیغام کے ساتھ اس احتجاجی جلسہ میں شرکت کیلئے روانہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کی حمایت کرتے ہیں اور ہمارا یہ مؤقف ہے کہ جس طرح برطانیہ انگریزوں کا اور فرانس‘ فرانسیسیوں کا ہے اسی طرح سرزمین فلسطین‘ فلسطینیوں کی ہے۔ مولانا محمد عبدالقوی ناظم جامعہ اشرف العلوم و صدر سٹی جمعیتہ علماء ہند نے کہا کہ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے مفصل تذکرہ سے ان میں خیر اور شرافت نظر نہیں آتی۔ یہ پیغمبروں کا قتل کرنے والی قوم ہے۔
مولانا احسن بن محمد‘خطیب شاہی مسجد نے کہا کہ بیت المقدس کے محافظ فلسطینیوں کے پاس ایمان کی ایسی طاقت ہے کہ وہ میزائیل کے آگے جھکتی ہے اور نہ ہی وہ بموں سے ڈرتی ہے۔ فلسطین میں جو حالات درپیش ہیں انہیں دیکھ کر مسلمان پست ہمت نہ ہو۔ بھارت میں ہم مسلمان ایسی زندگی گزار رہے ہیں کہ انہیں بھی وقتاً فوقتاً مختلف چالینجس سے گزرنا پڑتا ہے۔
فلسطینی عوام ہمارے لئے ایک حوصلہ اور ہمت ہیں۔ ان سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں بزدلی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اپنوں کو کھودینے والا تنہا فلسطینی بچہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت سے آگاہ ہے کہ قیامت تک ایک گروہ ایسا ہوگا جو بیت المقدس کی حفاظت پر مامور ہوگا اور وہ اس شرف کو پاکر مسرور ہوتا ہے۔
ان کے دلوں میں ایمان کی یہ حرارت ان کے والدین ڈالتے ہیں۔ فلسطینی عوام‘ ایک تعلیم یافتہ قوم ہے اور ان میں بیشتر قرآن مجید کے حافظ ہیں۔ مولانا مفتی محمد زبیر احمد قاسمی جنرل سکریٹری جمعیت علماء ہند‘ تلنگانہ نے کہا کہ فلسطین کے ساتھ پوری دنیا کے مسلمانوں کا رشتہ تین وجہ سے ہے۔ ایک وجہ انسانیت ہے‘ دوسری وجہ وحدت امت ہے اور تیسری مسجد اقصیٰ ہے۔
دنیا کی ٹھکرائی ہوئی یہودی قوم کو فلسطینیوں نے اپنی جگہ دی تھی مگر آج فلسطینیوں پر ہی فلسطین کی جگہ تنگ کردی گئی ہے اور ان پر ظلم ڈھائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ اور امریکہ نے فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کو بسایا ہے۔ بھارت جو غلامی اور تسلط کے درد کو سمجھتا ہے اس لئے وہ ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ رہا ہے۔
ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کچھ دیر کے لئے بہک گئے تھے لیکن انہیں سنبھالا گیا۔ انہوں نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات کو ختم کرے۔ انہوں نے کیرالا کی اس کمپنی کے مالک کا شکریہ ادا کیا جس نے اسرائیلی پولیس کو یونیفام فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج کرنے والے یہودیوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم شہادت سے ڈرنے والی قوم نہیں ہے۔
ہمارا یہاں جمع ہونا موت سے ڈر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب شہادت کا شرف پانے کا موقع آیا تو ہمارے اسلاف نے کہا رب کعبہ کی قسم ہم کامیاب ہوگئے۔ مولانا شاہ جمال الرحمن نے امیر ملت اسلامیہ ہند نے کہا کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے لئے قبلہ اول بھی ہے اوراس جگہ پر نبی آخری الزماں صلی اللہ نے معراج کے موقع پر تمام انبیائے کرام کی امامت فرمائی تھی۔یہ انبیائے کرام کی سرزمین رہی ہے اس لئے مسلمانوں کا اس خطہ سے تعلق فطری ہے۔
یہودی وہ قوم ہے جن کے بارے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کی طرف سے ملعون قرار دیا ہے اور اپنی طرف سے ان پر اپنا غضب نازل فرمایا۔مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے کہا کہ اسلام ظالموں‘ غاصبوں سے لڑائی کی تعلیم دیتا ہے۔ جہاد کا مقصد انسانیت کو ختم کرنا نہیں ہے ظلم اور برائی کو مٹانا ہے۔ حضوراکرم ؐ جب لشکر کو جہاد کے لئے روانہ کرتے تو کچھ دور لشکر کے ساتھ جاتے اور نصیحت فرماتے کہ بچوں اور عورتوں پر ہاتھ نہیں چلانا۔
عبادت میں مصروف لوگوں پر حملے نہ کرنا‘ لہلہاتی فصلوں اور پھل دار درختوں کو نہ کاٹنا۔ انہوں نے کہا کہ ایمان کا دوسرا درجہ ہے کہ ظلم کی مخالفت زبان سے کی جائے۔آج 57اسلامی ممالک ہیں لیکن کسی کی بھی ہمت نہیں ہے کہ وہ غزہ میں جو بربریت ہورہی ہے‘ اس کے خلاف آواز اٹھاسکیں۔
مولانا مفتی خلیل احمد نے بتایا کہ اسلام کی تعلیم‘انسانیت کی فلاح اور اس کی حفاظت کے لئے ہے۔ ہمیں کلمہ کی بنیاد پر متحد ہوکر اپنے آپ کو مضبوط بنانا ہوگا۔ اسلام ہمیشہ سے ظلم کے خلاف ہے۔ یزید اور حجاج بن یوسف جیسے ظالموں کو کبھی اسلام سے جوڑا نہیں جاتا۔ اسلام اپنی جگہ ہے اور ظلم اپنی جگہ(سلسلہ صفحہ2پر)۔