[]
مسعود ابدالی
مسلمانوں کو صدمہ پہنچانے کے لیے اہانتِ انبیا علیہم السلام، شعائر اسلام کی توہین اور قرآن پاک کی بے حرمتی انتہاپسندوں کا خاص ہتھیار ہے۔ زخموں پر نمک چھڑکنے کی غرض سے ان قبیح اقدامات کے لیے رمضان اور عیدین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ مسجدِ اقصیٰ میں اسرائیلی فوج کا جوتوں کے ساتھ داخلہ اور القدس شریف میں دراندازی رمضان میں بہت بڑھ جاتی ہے۔ مسلمانوں پر بھی ایامِ عیدالاضحی عام طور سے بھاری گزرتے ہیں۔
گفتگو شروع کرنے سے پہلے توہینِ قرآن مہم کے بارے میں ایک نظریہِ سازش کا ذکر:
چین میں مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے علَم بردار آن لائن جریدے Bitter Winter کے مطابق قرآن سوزی مہم کی پشت پر روس کی یہ کوشش ہے کہ ترکیہ کو مشتعل کرکے سوئیڈن کی نیٹو (NATO) رکنیت ناممکن حد تک مشکل کردی جائے۔ سوئیڈن نیٹو کا امیدوارِ رکنیت ہے اور نیٹو دستور کی رو سے گوشوارئہ رکنیت کی منظوری تمام ارکان کی رضامندی سے مشروط ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان سوئیڈن کو مخاطب کرکے صاف صاف کہہ چکے ہیں ”اگر تم ترک جمہوریہ اور مسلمانوں کے مذہبی عقائد کا احترام نہیں کرتے تو نیٹو رکنیت کے لیے ہماری حمایت کی توقع مت رکھو“۔ ”ہم مغرب کے متکبرین کو اِن شاءاللہ سکھا دیں گے کہ مسلمانوں کی توہین آزادی اظہار نہیں ہے۔“
”بِٹر ونٹر“ اٹلی کا ایک مرکزِ دانش (Center for Studies on New Religions) (CESNUR) شایع کرتا ہے۔ جریدے کے بانی اور معروف اطالوی ماہر عمرانیات Massimo Introvigne کے مطابق دائیں بازو کے ڈنمارک نژاد سوئیڈش سیاست دان راسمس پلوڈن (Rasmus Paludan) نے اعتراف کیا ہے کہ قرآن سوزی کے لیے انھیں روسی ٹیلی ویژن (RT)کے نمائندے چینگ فرک (Chang Frick)نے رقم فراہم کی تھی۔ اس اعتراف کی تصدیق برطانوی اخبار گارجین نے بھی کی، جس کا کہنا ہے کہ اس سال جنوری میں ترک سفارت خانے کے سامنے مظاہرے کے لیے اجازت کی فیس چینک فرک نے ادا کی جو 31 ڈالر کے قریب ہے۔ کسی آزاد ذریعے سے اس خبر کی تصدیق نہیں ہوسکی، تاہم اتنے بڑے کام کے لیے یہ رقم بہت تھوڑی ہے اور راسمس پلوڈن نے شیطانی مہم کئی دہائی پہلے شروع کی تھی جب سوئیڈن کی نیٹو رکنیت کا کوئی ذکر ہی نہ تھا۔ ہمیں یہ نظریہِ سازش حُبابی، بے بنیاد اور خودساختہ لگتا ہے۔
توہینِ قرآن مہم کا اصل محرک مغربی دنیا میں قرآن کی مقبولیت ہے۔ اس وقت امریکہ اور یورپ میں قرآن سب سے مقبول کتاب ہے اور اس کے پڑھنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ قرآن کریم جامعات کے اساتذہ، معروف صحافیوں اور دانش وروں کی ذاتی لائبریریوں کی زینت ہے اور ایمان نہ رکھنے والے بھی اس کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ توہین کی وارداتوں سے اس کے اشتیاق میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ فرقانِ حمید کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے مخالفین کی نفرت میں حسد کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے، اس لیے اب اس پر پابندی کی باتیں کی جارہی ہیں۔
پابندی کی اس مہم کی قیادت آج کل عراق کے فراری 37 سالہ سلوان مومیکا کررہے ہیں۔ مجرم پیشہ سلوان نے پانچ سال پہلے عراق سے فرار ہوکر سوئیڈن میں سیاسی پناہ لی ہے۔ سلوان خود کو الحاد کا علَم بردار کہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ دنیا میں ساری خرابیوں کی جڑ مذہی عقائد خاص طور اسلام، سیرتِ سرور دوعالمؐ اور قرآن ہے۔ سلوان کا کہنا ہے کہ وہ قرآن کو انسانیت کا دشمن نمبر ایک سمجھتے ہیں اور اس پر پابندی ان کا نصب العین ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ مسلمانوں کے مخالف نہیں بلکہ معصوم و سادہ لوح مسلمانوں کے مخلص و ہمدرد ہیں۔ سلوان کے خیال میں مسلم مذہبی عقائد نے مہذب دنیا پر انتہائی سنگین منفی اثرات مرتب کیے ہیں، اور دنیا کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے قرآن پر عالمگیر پابندی ضروری ہے۔
اس سال جنوری میں راسمس پلوڈن نے ترک سفارت خانے کے سامنے قرآن کے نسخے کو پولیس کی حفاظت میں نذرِ آتش کیا تھا، جس کے بعد سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ عوامی مظاہروں سے حکومت خاصی پریشان ہوئی، چنانچہ پولیس نے فروری میں قرآن سوزی کو امن عامہ کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی لگادی۔ پولیس کے اس فیصلے پر قرآن دشمن سخت طیش میں آگئے۔ انتخابی ناکامی کی وجہ سے راسمس پلوڈن کی اہمیت ختم ہوچکی ہے، چنانچہ میدان سلوان کے ہاتھ آگیا۔ انھوں نے سارے ملک کا دورہ کیا اور انتہاپسندوں کو باور کرایا کہ تقسیمِ قرآن کے مربوط نظام کی بنا پر مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور یہ سلسلہ اگر ایسے ہی جاری رہا تو مسلمان بہت جلد سوئیڈن پر چھا جائیں گے۔ سلوان کی جانب سے خطرے کی ان گھنٹیوں پر لوگوں نے کان نہ دھرا، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں بولی جانے والی زبانوں میں سے کسی پر بھی موصوف کو عبور نہیں اور انھیں ”پناہ گیر“ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن راسموس پلوڈن سے متاثر انگلیوں پر گنے جانے والے انتہاپسند ان کے گرد جمع ہوگئے۔
اسی کے ساتھ سلوان نے اسلام مخالف وکلا کے ذریعے قرآن سوزی پر پابندی کے خلاف عدالت میں درخواست دے دی۔ ان کا مؤقف تھا کہ کسی علامت کو نذرِ آتش کرنا اس نظریے اور علامت کے خلاف احتجاج ہے جس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ اپریل میں عدلیہ نے فیصلہ سنایا کہ اجتماع اور احتجاج کے حق کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔ چنانچہ قرآن سوزی پر پابندی غیر آئینی قرار دے دی گئی۔
عدالتی فیصلے پر سلوان ممیکا نے زبردست جشن منایا اور ساتھ ہی اعلان کیا کہ عیدالاضحی کے روز دارالحکومت کی مرکزی جامع مسجد کے سامنے خواتین سے امتیازی سلوک کی اس دستاویز اور منشورِ دہشت گردی کو نذرآتش کیا جائے گا۔ انھوں نے عدالتی حکم کی نقل کے ساتھ پولیس کو مظاہرے کی درخواست دے دی۔ سلوان کا کہنا تھا کہ مسلم انتہاپسند ان کے جانی دشمن ہیں لہٰذا انھیں بھرپور تحفظ چاہیے۔
عید کے دن صبح سویرے پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا، جس مقام پر آتشزنی کی واردات ہونی تھی وہاں پولیس نے تین حصار قائم کرلیے۔ قومی جذبات بھڑکانے کے لیے اس مقام کو سوئیڈن کے پرچموں سے سجادیا گیا اور لائوڈاسپیکر پر قومی ترانہ اور رزمیہ گیت سنائے جارہے تھے۔
میگا فون پر مغلظات بکتے ہوئے سلوان نے قرآن پر Bacan (سور کی چربی) مَلی، حقارت سے اس کے صفحات پھاڑ کر اپنے پیروں تلے روندے، اور پھر نسخے کو آگ لگادی۔ راسموس پلوڈن نے قرآن کے سوئیڈش ترجمے کو جلایا تھا، اور سلوان نے زخم کی سوزش کو دوچند کرنے کے لیے عربی نسخے کا انتخاب کیا۔ اس دوران سلوان کے گرد پولیس نے حفاظتی حصار بنا رکھا تھا۔
سلوان جیسے انتہا پسندوں کی دنیا میں کمی نہیں، لیکن اس معاملے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ قرآن سوزی کی نئی واردات عدالتی حکم پر ہوئی اور پولیس نے سلوان مومیکا کو جو تحفظ فراہم کیا وہ VIP Protocol کے مساوی تھا۔ قرآن جلانے کے عمل میں وردی پوش پولیس سپاہیوں نے سلوان کی مدد کی۔
اس موقع پر اسلام کے بارے میں مغرب کا غیر حساس رویہ کھل کر سامنے آیا۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ مذہبی کتب کو جلانا توہین اور دل شکنی کا باعث ہے اور قانونی ہونے کی صورت میں بھی یہ کام مناسب نہیں، ساتھ ہی انھوں نے ترکیہ کو تلقین کی کہ سوئیڈن کی نیٹو کے لیے رکنیت کی جلد از جلد توثیق کردی جائے۔ ایسا ہی مذمتی بیان نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کا ہے۔ برسلز میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ اس عمل کو پسند نہیں کرتے تاہم کچھ لوگوں کے لیے یہ آزادیِ اظہار رائے کا معاملہ ہے۔ ہمیں مسلمانوں کے جذبات کا اندازہ ہے لیکن ہم نیٹو کے لیے سوئیڈن کی رکنیت کی جلد از جلد توثیق کی توقع کرتے ہیں۔
امریکہ، یورپی یونین اور مغرب کے کسی بھی ملک یا قائد نے اس غلیظ عمل کے لیے مذمت(condemn)کا لفظ استعمال نہیں کیا، اور ہر جگہ آزادیِ اظہار کے عطر سے تعفن کے دف مارنے کی مکروہ کوشش کی گئی۔ قرآن کی بے حرمتی کے خلاف بغداد میں اپنے سفارت خانے پر مظاہرے سے سوئیڈن اتنا مشتعل ہے کہ وزارتِ خارجہ کے بجائے وزیراعظم اولف کرسٹرسن نے بنفس نفیس اپنے عراقی ہم منصب کو فون کرکے مظاہرے کو ”ناقابلِ قبول“ قراردیا۔ اس گفتگو میں بھی سوئیڈن کے وزیراعظم نے کہا کہ وہ قرآن جلانے کے عمل کو ”مناسب“ نہیں سمجھتے لیکن بادی النظر میں سلوان قانون شکنی کا مرتکب نہیں ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ بغداد میں مظاہروں سے ”مشتعل“ ہوکر سلوان نے دس دن بعد اسٹاک ہوم کے عراقی سفارت خانے کے سامنے قرآن کے ایک نسخے اور عراقی پرچم کو نذرِ آتش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عراقی جھنڈے پر اللہ اکبر تحریر ہے۔
ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ جلانے کے عمل کو آزادیِ اظہار کا تحفظ حاصل نہیں کیونکہ یہ عمل بہت بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔ جب ستمبر 2010ء میں ایک امریکی پادری ٹیری جونز نے اپنے گرجا کے پارکنگ لاٹ میں قرآن جلانے کا اعلان کیا تو شہری دفاع کے مقامی محکمے نے یہ کہہ کر پابندی لگادی کہ عوامی مقامات پر آگ جلانے سے حادثاتی آتش زنی کا خطرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مظاہروں کے دوران ٹائروں کو آگ لگانے پر نقضِ امن کے پرچے کاٹے جاتے ہیں حالانکہ ٹائروں کو نذرآتش کرنا مظاہرین کی جانب سے غصے کا اظہار ہے۔
ہم اس سے پہلے بھی ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں کہ تحفظِ اظہارِ رائے کا یورپی فلسفہ انسدادِ توہینِ مذہب کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ خود سوئیڈن ایک آئینی بادشاہت ہے اور وہاں سلطانِ معظم کارل سولہ گستاف (Carl XVI Gustaf) پر تنقید کی اجازت نہیں۔ اسی نوعیت کی سرخ لکیر کھینچ کر انبیائے کرام علیہم السلام، الہامی کتب اور شخصیات کی حرمت و توقیر کو یقینی کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟
۰۰۰٭٭٭۰۰۰