[]
شرد پوار کو بخوبی اندازہ تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ ان کے بھتیجے اجیت پوار طویل عرصہ سے یہی چاہ رہے تھے، لیکن اپنے چچا کی بے حسی سے عاجز آ چکے تھے۔ شرد پوار ان کے لیے یا پارٹی کے نوجوانوں کے لیے زمین چھوڑنے کو تیار نہیں تھے اور اجیت ان پر دباؤ بنا رہے تھے۔ وہ کافی حد تک اس میں کامیاب بھی ہو گئے جب اس سال مئی میں سینئر پوار نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ لیکن یہ دور بہت چھوٹا رہا اور اجیت اس کا جشن منا پاتے، اس سے پہلے ہی انکل حامیوں کی ’خواہش‘ کا احترام کرتے ہوئے واپس آ گئے۔
شرد پوار سیاسی داؤ پینچ کے ایسے ماہر کھلاڑی ہیں جس کی کاٹ مشکل ہے۔ مہاراشٹر کے سیاسی تجزیہ نگار یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ شرد پوار نے اجیت پوار سے ان کے اگلے قدم کے لیے تول مول نہیں کیا ہوگا۔ اجیت پوار انکل کے بھروسہ مندوں کو توڑنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ این سی پی (نیشنلسٹ کانگریس پارٹی) کی ٹوٹ کی خانہ پری ہونے کے بعد پریس کانفرنس میں پوار سینئر خوش نظر آ رہے تھے اور مطمئن بھی۔
شرد پوار کی بایوگرافی ’آن مائی ٹرمس‘ کے غیر مرئی مصنف آنند اگاشے کہتے ہیں ’’(پارٹی کی ٹوٹ کی وجہ سے) وہ حوصلہ شکن تو بالکل نہیں ہیں۔‘‘ پوار نے خود بھی کہا کہ انھوں نے 1980 میں اس سے بھی برا وقت دیکھا جب اس وقت کی کانگریس (سوشلسٹ) پارٹی کے 58 میں سے 6 اراکین اسمبلی کو چھوڑ کر سبھی نے کانگریس (آئی) کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’تب میں نے پارٹی کو پھر سے کھڑا کیا اور اگلے انتخاب میں پارٹی چھوڑنے والے اراکین اسمبلی میں سے 3-2 کو چھوڑ کر سبھی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
میڈیا این سی پی کی تقسیم کو شرد پوار خیمہ کے لیے ایک ایسے نقصان کے طور پر دیکھتا ہے جس کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ سینئر پوار کے پاس اجیت گروپ کے مقابلے میں کم اراکین اسمبلی کی حمایت ہے۔ لیکن میڈیا شاید اس بات کو نظر انداز کر رہا ہے کہ یہ اسمبلی آئندہ سال تحلیل ہو جائے گی اور اس سے پہلے ہی لوک سبھا کے انتخابات ہوں گے اور جب سال کے آخر میں مہاراشٹر اسمبلی انتخاب کا وقت آئے گا تو کافی کچھ بدل بھی سکتا ہے۔
اسمبلی انتخاب کے وقت یہی اراکین اسمبلی ٹکٹ کے لیے دوڑ بھاگ کریں گے اور تب اپنے امکانات کا از سر نو جائزہ لیں گے۔ جیسا کہ ایک دیگر سیاسی تجزیہ نگار ابھے دیشپانڈے کہتے ہیں، فی الحال کے لیے تو اجیت اور ان کے حامیوں ’جنھوں نے کم از کم تین نسلوں کے لیے خاصی کمائی کر رکھی ہے‘، نے جیل سے باہر رہنے کے لیے سودے بازی کر لی ہے۔ لیکن دیش پانڈے کا کہنا ہے کہ اب ووٹرس یا یہاں تک کہ این سی پی حامیوں کے ذریعہ انھیں دوبارہ قبول کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔
بے شک پوار سینئر درحقیقت تقسیم سے ’بے خوف‘ ہوں، جیسا کہ ان کی سوانح لکھنے والے کو لگتا ہے، کیونکہ اتنا تو وہ جانتے ہیں کہ جب ووٹ کے لیے لوگوں کے پاس جانے کا وقت آتا ہے تو ان کے پاس بہتر کارڈ ہوتے ہیں۔ شرد پوار جانتے ہیں کہ لوگ انھیں ووٹ دیتے ہیں، نہ کہ این سی پی کے کسی بھی امیدوار کو۔
مثلاً، جب چار بار کے این سی پی رکن پارلیمنٹ ادین راجے بھوسلے، جو چھترپتی شیواجی مہاراج کی 14ویں نسل سے تھے، نے ستارا سے لوک سبھا انتخاب جیتنے کے کچھ ہفتہ بعد ہی بی جے پی میں شامل ہونے کے لیے استعفیٰ دے دیا تو اکتوبر 2019 میں ضمنی انتخاب ہوا اور بھوسلے کو ٹکر دینے کے لیے مناسب امیدوار کی تلاش میں پوار کو خاصی محنت کرنی پڑی۔ آخر کار انھوں نے ایک سبکدوش نوکرشاہ کا نام فائنل کیا جس کی کوئی سیاسی بنیاد نہیں تھی۔ پھر بھی اس نوکرشاہ نے زبردست اکثریت سے جیت حاصل کی۔ عوام نے اپنے محبوب راجہ کی نسل کو نہیں بلکہ شرد پوار کو منتخب کیا۔
ؔاب سوال اٹھتا ہے کہ این سی پی میں داخلی رنجش اور اس کے بعد اسے توڑنے سے بی جے پی کو کیا حاصل کر لینے کی امید ہے؟ جانے مانے مراٹھی صحافی آسبے کو لگتا ہے کہ اجیت اپنے لیے نہیں بلکہ بی جے پی کے لیے بول رہے ہیں جو سینئر پوار کو مہاراشٹر میں اپنے لیے سب سے بڑے رخنہ کی شکل میں دیکھتی ہے۔ دیش پانڈے کہتے ہیں ’’انھوں نے ریاست میں فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑنے کی پوری پوری کوشش کی لیکن ووٹروں کے پولرائزیشن کی کوششیں ان کے منصوبہ کے مطابق نہیں ہو سکیں۔ شیوسینا کے ٹوٹنے کے بعد بھی ایم وی اے (مہا وکاس اگھاڑی) اتحاد تب بھی مضبوط نظر آ رہا تھا اور بی جے پی کے کئی داخلی سروے میں پایا گیا تھا کہ شندے کے ساتھ اتحاد کرنے کی وجہ سے پارٹی اپنی زمین سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔
جب انھیں اندازہ ہو گیا کہ شندے ان کے لیے بوجھ بنتے جا رہے ہیں، تو انھیں ایم وی اے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کچھ تو کرنا ہی تھے۔ لیکن بی جے پی یہ نہیں دیکھ پاتی ہے کہ مہاراشٹر کے لوگ ایم وی اے کی طرف اس لیے نہیں جھک رہے ہیں کہ وہ کیا کر رہی ہے بلکہ اس لیے کیونکہ وہ بی جے پی کی چالوں سے تنگ آ چکے ہیں جس نے 2019 کے بعد سے اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے ہیں۔‘‘
ذرائع بتاتے ہیں کہ بی جے پی کے داخلی سروے نے چار اہم ریاستوں کے طور پر بنگال، بہار، کرناٹک اور مہاراشٹر کی شناخت کی ہے جہاں سے ان کے پاس تقریباً 140-135 لوک سبھا سیٹیں ہیں۔ مہاراشٹر تنہا ایسی ریاست ہے جہاں وہ اپنی لوک سبھا سیٹیں برقرار رکھنے کی امید کر سکتے ہیں۔ جنوبی ہند میں ان کے امکانات صحیح معنوں میں کم ہیں اور وسط و شمالی ہند میں مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی بڑی ریاستوں کی جو حالت ہے، وہ کسی بھی سمت میں جا سکتی ہیں۔ آرام دہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے بی جے پی کو ان ریاستوں میں بڑی جیت حاصل کرنی ہوگی، اسی وجہ سے یہ مایوسی بھرا کھیل ہے۔ 2019 میں بی جے پی-شیوسینا نے 48 میں سے 42 سیٹیں جیتی تھیں جن میں شیوسینا کی سیٹوں کی تعداد 18 تھی۔ اخباری رپورٹس کو چھوڑیے، ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی ماننے لگی ہے کہ شندے انھیں 5 سے زیادہ سیٹیں نہیں جتا سکتے۔
دیش پانڈے کہتے ہیں کہ ’’انتظار کیجیے اور دیکھیے۔ جیسے جیسے انتخاب نزدیک آئے گا، اجیت پوار کے بھی بی جے پی کے لیے بوجھ بن جانے کا امکان ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ این سی پی کا ووٹ بینک سیکولر ہے اور پہلے بھی شیوسینا سمیت بھگوا خیمے سے جب بھی نزدیکیاں بنیں، اس کا نقصان این سی پی کو ہوا۔
اس کے علاوہ ریاست کی فرقہ وارانہ خیر سگالی کو بگاڑنے کی بی جے پی کی کوششوں کا بھی الٹا اثر ہوا ہے۔ پولرائزیشن کا اثر یہ ہوا کہ مسلم ووٹ عام طور پر ایم وی اے کے حق میں جمع ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ خاص طور پر ادھو کی شیوسینا کے حق میں۔ ظاہر طور پر اپنی پارٹی کو ایک سافٹ ہندوتوا کی طرف لے جانے کے بارے میں ادھو کے عوامی بیانات نے مسلمانوں کے اندیشوں کو کافی حد تک دور کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی شکل میں اپنی مدت کار کے دوران انھوں نے اسمبلی میں اس بات کے لیے معافی مانگی کہ انھوں نے مذہب کو سیاست سے ملایا اور پھر رمضان کے دوران مسلمانوں کو پریشان کرنے کی بی جے پی کی کوششوں کا پوری طاقت سے مقابلہ کیا اور اس طرح ’ہندوتوا کا غدار‘ قرار دیئے جانے تک کا بھی جوکھم اٹھایا۔‘‘
گزشتہ مردم شماری کے مطابق ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 12 فیصد ہے اور یہ ووٹ یقینی طور سے بی جے پی کے خلاف جا رہی ہے۔ دلت 20 فیصد ہیں اور ان کی آبادی زیادہ تر وِدربھ اور مراٹھواڑہ میں مرکوز ہیں۔ عام طور پر کانگریس اور این سی پی کے ساتھ رہنے والے مراٹھا تقریباً 32-30 فیصد ہیں۔
بی جے پی کی سیاسی چالوں کا تجزیہ کرتے ہوئے دیش پانڈے کہتے ہیں ’’انھیں اس ووٹ بینک میں سیندھ مارنی ہوگی لیکن اس کا زبردست رد عمل ہونے کا امکان ہے۔‘‘ سیاسی تجزیہ نگار ہیمنت دیسائی کا ماننا ہے کہ ان تمام ہتھکنڈوں کے بعد بھی ایم وی اے ووٹ برقرار رہے گا۔
پہلی نظر میں ادھو کی شیوسینا اور شرد پوار کی این سی پی دونوں بحران میں ہیں اور سیاسی یونٹ کی شکل میں کمزور نظر آ رہی ہیں، لیکن ایم وی اے اتحاد کے حق میں ووٹ سوئنگ کرانے کی ان کی صلاحیت کو یقیناً ہی نئی سبقت ملی ہے۔ ان کے پاس اب ساتھ رہنے کے بہتر اسباب ہیں اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو غالباً انھیں ووٹرس کی ہمدردی کا بھی فائدہ ملے گا۔