[]
مہر خبررساں ایجنسی_سیاسی ڈیسک؛ صیہونی رجیم کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے تیاری اور سکیورٹی انتباہ کی ناکامی کی وجہ سے چند گھنٹوں میں ایک ہزار سے زائد صیہونی ہلاک اور تقریباً 150 کو مزاحمتی قوتوں نے گرفتار کر لیا۔
نیویارک ٹائمز کے کالم نگار مائیکل فریڈمین اس حوالے سے لکھتے ہیں: ’’اسرائیلی انٹیلی جنس کا اندازہ یہ تھا کہ حماس ایک ایسے اقدام کی تیاری کر رہی ہے جسے وہ عملی کرنے کی ہمت کبھی بھی نہیں کرے گی۔ جبکہ یہ فیصلہ غلط اور متکبرانہ تھا۔
صیہونی خفیہ اداروں کے مغرورانہ خیال کے برعکس، حماس نے خشکی اور سمندر سے حملہ کیا جو ناقابل یقین حد تک حیراکن اور پیچیدہ تھا۔
الاقصیٰ طوفان نے ظاہر کیا کہ صہیونی فوج جارحانہ کارروائی کے لیے کس قدر کمزور ہے۔
یہ کمزوری ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں صیہونی اور عبرانی چینلوں کے سیاسی اور عسکری ماہرین نے حالیہ برسوں میں بارہا خبردار کیا ہے۔
اس سلسلے میں بائیں بازو کے اخبار Haaretz نے اپنے ایک ادارتی نوٹ میں لکھا ہے کہ نیتن یاہو کی ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے حکمت عملی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے اور امریکہ کے ساتھ تعلقات ایسے کشیدہ ہیں جیسے پہلے کبھی نہیں تھے۔ امریکہ جو اسرائیل کا انتہائی اہم اتحادی سمجھا جاتا ہے کے بغیر یہ واضح نہیں کہ یہ حکومت ایک دن بھی چل سکتی ہے۔
اس اداراتی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ہم اب ایک طوفان کا سامنا کر رہے ہیں جس کے بارے میں تجزیہ کاروں نے بیک وقت کئی محازوں پر جنگ کے عنوان سے خبردار کیا تھا۔
آج ایران، حماس اور حزب اللہ اسرائیل کے اندر جاری اس افراتفری سے خوش ہیں۔ وہ کیوں نہ خوش ہوں؟ یہ تمام تنازعات اسرائیل کی دفاعی طاقت کو کمزور اور اس کی بین الاقوامی حیثیت کو تباہ کرتے ہیں۔
خطے میں مستقبل قریب میں تبدیلیوں سے دوچار ہونے والی واحد رجیم اسرائیل ہے، نہ ایران۔”
لبنانی محاذ کی آمادگی اور صیہونی فوج کی تباہی
الاقصیٰ طوفانی جنگ کے دوسرے روز لبنان کی سرحد سے مقبوضہ علاقوں میں 3 راکٹ فائر کیے گئے۔ ایک انتہائی ٹارگٹڈ میزائل تین آرمی ہیڈکوارٹرز کو لگا اور لبنانی حزب اللہ نے ایک گھنٹے بعد ایک واضح بیان میں اس کی ذمہ داری قبول کی اور صیہونیوں کو دھمکی دی کہ وہ غزہ کے خلاف کشیدگی اور دباؤ کو ترک کریں۔
حالیہ برسوں میں، اسرائیلی ماہرین نے تل ابیب کے ساتھ جنگ میں دو یا زیادہ محاذوں کے خلاف بار بار خبردار کیا ہے۔
اس سال مارچ میں غزہ کی حمایت میں لبنان کا اسرائیل کے ساتھ تنازعے میں کودنا ایک پیشگی معروضی حقیقت تھی جو قابل فہم ہے۔
جس کے نتیجے میں کئی راکٹ لبنان میں مقیم فلسطینی گروپوں کی طرف سے مقبوضہ علاقوں داغے گئے۔
عبرانی نیٹ ورک i24 نے ایک رپورٹ میں لکھا: “1973 وہ آخری وقت تھا جب اسرائیل کو ایک سے زیادہ محاذوں پر لڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ اب یہ خوشگوار حقیقت بدل رہی ہے اور اگلی جنگ میں ہم کئی محاذوں پر مصروف ہوں گے۔”
20 روز قبل صہیونی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف ہرزی ہالوی نے جنگ اکتوبر کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر افسروں سے خطاب میں کہا تھا کہ فوج بیک وقت کئی محاذوں پر جنگ کے لیے تیار ہے۔
صہیونیوں کو شمالی محاذ سے حملے کا خوف
طوفان الاقصی میں حزب اللہ لبنان کی خوف ناک انٹری کے خوف نے صہیونیوں کو پریشان کر دیا ہے۔ عبرانی میڈیا کے مطابق صیہونی فوج کی نصف نفری غزہ کے اطراف سے شمالی سرحد کی طرف منتقل کر دی گئی ہے تاکہ 7 اکتوبر کا حیراکن حملہ اس بار شمال میں لبنان کی سرحد پر نہ دہرایا جائے۔
صیہونی کئی محاذوں کی جنگ کے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔
صہیونی ٹی وی چینل 12 نے اپنی ایک خبر میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کے شمال میں (لبنان سے ملحقہ) الجلیل کے 75 فیصد سے زیادہ باشندوں نے مزاحمت کے ممکنہ حملے اور اندر گھسنے کے خوف سے یہ علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں چلے گئے ہیں۔
لیکن اب درپیش میدان جنگ اور امتحان کی آمد کے ساتھ ہی بہت سے تجزیہ نگاروں اور ماہرین حتیٰ کہ بہت سے موجودہ اور سابق صیہونی فوجی حکام نے خبر دار کیا ہے کہ موجودہ بحرانی صورتحال میں جہاں صیہونی رجیم اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے بحرانوں میں گھری ہوئی ہے، حتی ایک محاذ پر بھی لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
اس جنگ میں حزب اللہ کی انٹری کے خوف سے صیہونی رجیم نے امریکہ کے پیر پکڑ لئے
صیہونی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’’اسرائیل کی مدد کے لئے آنے والے امریکی طیارہ بردار بحری اور جنگی جہاز، کئی محاذوں پر جنگ کی صورت میں شامل ہوں گے‘‘۔
نتیجہ کلام
تل ابیب کے لئے غزہ کے محاذ کے علاوہ لبنان کی سرحد پر دوسرے محاذ کا کھلنا بہت مہنگا پڑے گا اور اس سے صیہونی فوج اور آرمر فورسز کی طاقت منتشر ہو جائے گی۔ یہ ایک ایسا خوف ناک چیلینج ہے جو صیہونی فوج کی طاقت کو مضمحل کر دے گا۔
تاہم شمالی سرحدوں میں جنگ شروع ہونے کی صورت میں صہیونیوں کے لیے جو چیز سب سے زیادہ خوف ناک ڈراونی ہے وہ حزب اللہ اور اس جنگی طاقت کے بارے میں صیہونی رائے عامہ میں پایا جانے والا خوف اور وحشت ہے۔
صہیونیوں کا خیال ہے کہ اگر صہیونیوں کے مکمل محاصرے اور مکمل کنٹرول میں رہنے والے فلسطینی مزاحمتی گروہ اس طرح کے طوفانی آپریشن کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو پھر لبنانی حزب اللہ تو غزہ کی چھوٹی سی فورس سے شکست کھانے والی اس تھکی ہاری صیہونی فوج کے چھکے چھڑانے کی بہتر اور خوف ناک صلاحیت رکھتی ہے۔