[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اتوار کی صبح 7 بجے داستان کا آغاز ہوا جب 16 سالہ طالبہ اپنی دونوں دوستوں کے ساتھ سکول جانے کے لئے تہران کے شہداء اسکوائر پر میٹرو اسٹاپ پر تھی۔
تہران میٹرو کے سی ای او کے مطابق چنانچہ خفیہ کیمروں سے حاصل ریکارڈ سے اس کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ آرمیتا اپنی دوستوں کے ہمراہ میٹرو ٹرین میں سوار ہوتے دباو کی وجہ سے زمین پر گر جاتی ہے۔
تصاویر سے واضح ہورہا ہے کہ ان کے ٹرین میں سوار کے چند ہی سیکنڈ بعد وہ زمین پر گر جاتی ہے۔ اس دوست اور ٹرین میں سوار بعض مسافر اس کی مدد کو آتے ہیں اور اس نوجوان لڑکی کو ٹرین سے نکال کر طبی امداد کے لئے لے جاتے ہیں۔
میٹرو اسٹاپ کے دوسری طرف لگے ہوئے کیمروں سے لی گئی تصاویر سے ثابت ہورہا ہے کہ آرمیتا اور اس کی دوست کچھ منٹ اسٹاپ پر ٹرین کے انتظار میں کرسی پر بیٹھ جاتی ہیں۔ اس دوران میٹرو ٹرین کے ملازمین یا کسی مسافر کے ساتھ لڑائی یا جھگڑے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ہیں بلکہ یہ لڑکیاں ایک دوسرے سے گفتگو کرتی رہتی ہیں۔
ٹرین سے باہر نکالنے کے بعد فوری بعد ایمرجنسی طبی امداد کی ٹیم موقع پر پہنچتی ہے اور ابتدائی طبی امداد کے بعد ہسپتال منتقل کرتی ہے۔
واقعے کے بعد دشمن میڈیا منفی پروپیگنڈا شروع کرتا ہے اور واقعے کو مسافر اور ٹرین کے عملے کے درمیان زبانی لڑائی کا شاخسانہ قرار دیتا ہے لیکن میٹرو میں ریکارڈ ہونے والی ویڈیو سے واضح ہورہا ہے کہ نوجوان لڑکی اپنی دوستوں کے ساتھ سکون کے ساتھ میٹرو ٹرین اسٹاپ کی کرسیوں پر بیٹھ کر گفتگو کررہی ہے۔
دشمن ذرائع ابلاغ کا ایک اور بے بنیاد الزام اور پروپیگنڈا یہ ہے کہ خفیہ کیمروں سے ملنے والے ریکارڈ میں ٹرین کا اندرونی منظر نہیں دکھایا جارہا ہے حالانکہ آرمیتا کے ٹرین میں سوار ہونے اور بے ہوش ہوکر گرجانے کے درمیان تین سے چار سیکنڈوں سے زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔
اس مختصر وقت میں زبانی تلخ کلامی ممکن نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ میٹرو ٹرین میں سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ میٹرو کے ملازمین اسٹاپ پر ہوتے ہیں ٹرین کے اندر نہیں ہوتے ہیں۔
آرمیتا کی ماں کا کہنا ہے کہ میری بیٹی اپنی دوستوں کے ساتھ میٹرو ٹرین میں سوار ہونے کے بعد اچانک دباو کی وجہ سے زمین پر گر جاتی ہے اور اس کا سر ٹرین کے کونے سے لگ جاتا ہے۔ ایک دوست اس سے آگے اور دوسری پیچھے ہوتی ہے۔ واقعے کے فورا بعد ایمبولینس کے اہلکار اس کو ہسپتال پہنچاتے ہیں۔
آرمیتا کی ماں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے تاکید کرتی ہے کہ میں نے تصاویر دیکھی ہیں اور تمام ویڈیوز چیک کی ہیں جس میں کوئی مشکوک حرکت نظر نہیں آئی۔ لوگوں سے درخواست ہے کہ میری بیٹی کی جلد شفایابی کے لئے دعا کریں۔
آرمیتا کے والد کا کہنا ہے کہ تمام ویڈیوز دیکھی ہیں جس کے بعد یقین ہوگیا ہے کہ یہ ایک حادثہ تھا۔ ہماری بیٹی بیمار نہیں تھی اور کوئی دوائی استعمال نہیں کرتی تھی اور لوگوں سے گزارش ہے کہ اس کی سلامتی کے لئے دعا کریں۔
قابل ذکر ہے کہ میٹرو پر پیش آنے والے اس حادثے کی ویڈیو میں آرمیتا کے کے اسٹاپ پر ہہنچنے سے لے کر ٹرین میں سوار ہوکر گرنے کے بعد طبی امدادی ٹیم کے آنے تک کا دورانیہ 5 منٹ پر مشتمل ہے۔ اس پورے دورانیے میں کسی قسم کی تلخ کلامی یا لڑائی جھگڑے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ہیں۔
ایران مخالف ذرائع ابلاغ کی کوشش ہے کہ اس دفعہ “مہسا امینی” کے بجائے “آرمیتا گراوند” کے نام سے غلط استفادہ کریں حالانکہ آرمیتا کے گھر والے کئی بار کہہ چکے ہیں کہ واقعے کی حقیقت اور اصل کہانی واضح ہے لہذا اس کے بارے میں منفی پروپیگنڈا نہ کیا جائے۔
دشمن میڈیا کی کوشش ہے کہ حجاب جیسے مسئلے کو بنیاد بناکر ایران کے کسی بھی حصے میں پیش آنے والے ہر حادثے کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کیا جائے تاکہ گذشتہ سال معاشرے میں بحران ایجاد کرنے میں ہونے والی ناکامی اور شکست کا بدلہ لیا جائے اور اپنی پوری نہ ہونے والی آرزوؤں کو پورا کرنے کی دوبارہ کوشش کی جائے۔