سنسد پراناIndiaکا‘اقبال وَترقی کارازداںبھارت کے Cental Vista کا بیک فائر

[]

ظفر عاقل

بڑی زور کی لگتی ہے جب بیک فائر کی چوٹ سے سابقہ پڑتا ہے؛عام طور پر ان تجربات سے وہ بیچارے گزرا کرتے ہیںجن کی بائیک اسٹارٹ ہونے کانام نہیں لیتی ہے؛ اور اس سعی پیہم کے دوران جب کِک کا بیک فائر نیچے تلوے کے مرکزسے لے کر گھٹنوں کی گولائیوں کو احاطے میں لیتا ہے تب درد کی لہر وجودِ مجسم کوسر (Conquer) کرتے ہوئے اُوپری آخری منزل سر (Head)کے یخ بستہ ہمالہ کو آگ لگا کر جوالامکھی بنادیتی ہے۔چنانچہ “مودی ہے تو ممکن ہے” والا معاملہ(بقول مہوا متراTMC) بھی نئی سنسد میں سنسنی پیرائے میں پیش کرنے کے چکرمیں۔۔۔ تاکہ صنف نازک کنیا دان کمیونیٹی (دان کی بجائے رخصتی ۔۔۔ عزت نفس کی نئی اونچائیاں) کے(50فیصد) ووٹ بنک پر شب خون مارا جائے اور بھگوا رنگ رُوپ دے کرلال قلعہ واپسی کی راہیںآسان کی جاسکے۔
چنانچہ لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین کو33%تحفظات( جنتا پارٹی MPپرامیلا ڈنڈاوتے نے 1970میں بذریعہ چارٹر آف ویمنس رائٹ مطالبہ کیا تھا) دینے کے لیے مودی بھاجپا سرکار نے 19Sep2023کو128دستوری ترمیم کے طورپر “ناری شکتی وَندن اَدھی نیم ” پیش کیا ہے؛اپوزیشن کی تائید سے اب وہ قانون بن چکا ہے؛یاد رہے کہ PMدیوے گوڑٖا کے دَور میں پہلی بار اس بل کو پیش کیا گیا تھا لیکن قانون نہیں بن سکا تھا۔ پنچایت راج(لوکل باڈیز) میں پہلے ہی سے یہ تحفظات خواتین کو حاصل ہیں ۔اس بل کو سوائے MIM کے سبھی کی رضامندی حاصل رہی ہے؛عالمی طور پر(26.7%پارلیمانی سیٹس) اور(35.5% لوکل باڈیز) میںتحفظات حاصل ہیں؛ اور بھارت اب ان 64ممالک میں شامل ہوجائے گا۔قانون بننے کے باوجودشومئی قسمت کہ بھاجپا کی کھوٹی نیت کے سبب BackFire کرگیا۔
کانپتے ہاتھ‘گھبرائے من اور عمر رسیدہ تن کے ذریعہ سے تحفظات کے نام پر ناری کلہاڑی کو اپنے ہی دونوں پانؤں پر دے مارا گیا جس کے درد کرب ‘کسک کی لہر 2024لوک سبھا نتائج کے بعد تک محسوس کی جاتی رہے گی۔امرت کال میں امر بننے کے چکر میں نئی پارلیمنٹ بلڈنگ کا افتتاح اور ناری ریزرویشن بل کا سہارا لیا گیا لیکنOBCکی عدم شمولیت نیزجدید مردم شماری اور مابعد انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی کے بعد ہی عمل آوری کی شرائط کی” پلٹ مار “نے فائدہ کی بجائے نقصان سے ہمدوش کردیا ہے ؛اور اب زخم چاٹنے کے ما سوا کوئی چارہ بچا نہیں ہے۔ساری اپوزیشن بالخصوص راہول گاندھی نے فوری لاگو کرنے اور OBCکی عدم شمولیت پر اسکو حق تلفی اور ظلم قرار دیتے ہوئے جاتی جن گرنا کا مطالبہ کردیا ہے۔کہاں آدھی آبادی کی حمایت کے منگیری لعل کے سپنے ۔۔۔اور کہاں خواتین کی بد ظنی کے علاوہ بڑی محنت سے رام کیا گیا OBCلیکن اب ہاتھ سے پھسلتی ریت کی مانند کانگریس اور INDIAگٹھ بنددھن کے ساتھ امیدیں وابستہ کرتاجارہا ہے۔
دریائے سندھو پار اس ملک سند وستان(ہندوستان)کے جمہور کی آن بان شان اور‘یادیں کاروائیاں اور فیصلے‘حمایتیں اور مخالفتیں وغیرہ۔۔۔اور جس کی فکر و خیال کا مرکز و محور وَ امین پارلیمنٹ کی سابقہ عمارت رہی ہے؛اور 75برسوں کا اقبال ترقی اور عزت و وقار کے ایک ایک انگکی محافظ وَرازداں۔۔۔ نیز برٹش حکمرانوں سے آزادی کی انتھک جدوجہدکا ثمر‘ جیل آنے جانے اور جان وَمال کی آہوتی کا آشیاں۔۔۔پارلیمنٹ کی سابقہ عمارت رہی ہے ؛ مزید آگے بھی خدمات ممکن ہوسکتی تھیں ؛لیکن سابق کی ساری نشانیوں کو یک قلم مٹانے کی ہوڑ نے تغلقی طرز پر زاعفرانی فکر و فرد کو آمدہ کار کیا کہ وہ تاریخ اور اس کے روشن پہلوکو تاریکی سے ہمکنار کردیں۔
چنانچہ نئی پارلیمنٹ کی عمارت کو بڑی شان سے Central Vistaکہہ کر 140کروڑ بھارت واسیوں کی شان بڑھائی گئی؛ لیکن ذرا بھی لَجّا نہیں آئی جب انڈیا کوناپسند( اپوزیشن اتحاد۔ INDIA) اور بھارت کی دیو انگی کا جنون اچانک سر پر سوار ہوا جب کہ دستور میں دونوں الفاظ ہیں ۔ دیس اور دنیا کو نئی پریشانی میں مبتلا کرنے اور نئے نام کرن پر (عوام کے محصولات سے)کروڑوں خرچے میںڈال دینے سے رَتّی برابربھی افسوس ہوا ہے محسوس نہیں ہوتا ہے۔
کروکشیتر کے پِتاما کردارکی طرح۔۔۔ سابقہ پپو (ہزار ہا کروڑ کے اندھا دھند خرچ کے بعد بدنام کیے گئے )راہول گاندھی کا نئی پارلیمنٹ بلڈنگ سنٹرل وِسٹا کا پہلا بھاشن اندرون بھارت ہی نہیں بلکہ باہر دنیا بھر میں دیکھا سنا اور سراہا جارہا ہے ؛اور یہ فی زمانہ ہی نہیں بلکہ مستقبل کی سیاست پر اپنے جلوے بکھیرے گا ؛راہول کا تحفظات برائے خواتین بیان کوصرف ایک دِن میں قریب چھ لاکھ لوگ دیکھ چکے ہیں اور سوشل میڈیا اس سے بھرا پڑا جب کہ پرائم منسٹر مودی کابھاشن اتنی تام جھام اور سن سادھن کے باوجود ڈھائی لاکھ کو پہنچا ہے۔ کانگریس کی جانب سے مہیلا بِل کو سپورٹ کرتے ہوئے کانگریس کی جانب سے سونیا گاندھی کا سنٹرل وِسٹا کا statement اسی طرزکا ہے ؛
کانگریس کے ان دونوں سابقہ صدور کے علاوہ اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے (بالخصوص مہوامترا نے) جو اعتراضات اُٹھائے ہیں اور جن کمیوں کا تذکرہ کیا ہے وہ بہت ہی اہم ہیں؛نیزبغیر تاخیراور بشمول بیک ورڈ کلاس( 50%+)نیزبشمولیت مسلم خواتین ۔۔۔ خواتین تحفظات بل لاگو کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھاجپا کی بازی کو مودی شاہ کے ہاتھوں سے چھین کراپنے حق میں کرلیا ہے اور تاخیری نفاذ ی شرائط کے نکات پرجگ ظاہر ہے کہ بھاجپا کی مخالفت میںاپوزیشن اس کو سیاسی طور پر بھنائے گا؛نیز مودی شاہ اورRSS کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردے گا۔
راہول گاندھی نے بل کی حمایت ‘ تاخیری نفاذ پر مخالفت ہی نہیں بلکہ نئی سنسد میں بھارت کی صدر( مہیلا۔آدی باسی )کی عدم موجودگی پر سوال کھڑا کرنے کے علاوہOBCکو اس بل کے دائرہ سے باہر رکھنے پر نکتہ چینیاور مختلف شعبہ حیات میں OBC کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا تذکرہ کیا ہے کہ حکومت کے ذمہ دارانہ مناصب ‘جوڈیشری‘یونیورسیٹی وائس چانسلرس‘حکومتی ادارے‘میڈیا وغیرہ میں غیر اعلیٰ جاتیوں کی عدم شمولیت سے ان کے ساتھ ظلم اور ناانصافی ہوئی ہے۔سب پر عیاں ہے کہ OBCجہاں آبادی کا آدھا حصّہ ہے تب وہیں پرانتخابات کے لیے ترپ کا پتّہ بھی ہے۔ سنٹرل وِسٹا کے بھاشن میں کہا کہ مرکزی کابینہ کے جملہ 90سکریٹریز میں صرف 3کا تعلق OBCسے ہے اور 44لاکھ کروڑ کے جملہ بجٹ میں صرف 5%پر ہی OBC کی دسترس ہے؛اس شرمناک ناانصافی اور ظلم کے مداوے کے لیے انہوں نے جاتی جن گرنا کو بِلا تاخیر کرانے کو اشد ضروری قرار دیا؛اور ذات پر مبنی مردم شماری اگرمودی سرکار نہیں کراتی ہے تب کانگریس اس اہم کام کو انجام دے گی ۔
اترپردیش بہار مدھیہ پردیش راجستھان اور ہریانہ وغیرہ ہندی اور گائے بیلٹ جہاں پر OBCکے اطراف سیاست اور اقتدار گھومتا ہے؛UP جہاںمسلم20% ۔دلت21% ۔سورن19% ۔اورOBC40%میں منقسم آبادی کی کامیاب سوشل انجنیرنگ کے کارن بھاجپا اترپردیش میں نہ صرف اقتدار پر قابض ہے بلکہ تقریباً تمام 80Mpsلوک سبھا نیز 32راجیہ سبھا سے سنسد پہنچتے ہیں؛اورویمن ریزرویشن بل میں OBCکو شامل نہ کیا جانا بیک فائر کا موجب ہوگا نیز اس سے مسلم سوسائٹی کو بھی اقتدار کی قربت سے روکنے کا عندیہ ملتا ہے۔کانگریس اور راہول گاندھی کا جاتی جن گرنا اور OBCکا پرچم ہاتھ میں لے لینا ہندی بیلٹ بالخصوص یوپی میں مددگار ہوگا جہاں پردسمبر1989سے اقتدار سے باہرہوگئی ہے۔
منووادفطرت کا خاصہ مفاد پرستی سے منسلک رہا ہے تبھی تو اُونچی ذات برادریوں کے مفادات کی خاطربنی نوع انسانی کو طبقاتی تقسیم کیا گیا اوراِس طرزتقسیم کو سماجی ‘اخلاقی وَآئینی نیزسیاسی رنگ و روغن سے منزّع و مرصّع کیا گیا اور نتیجتاً ہزارہا سال تک اس کو ملک کی انسانی اکثریت کے گلے کی طوق بنا کر حکمرانی کے حصار میں دیدیا گیا۔ آج آزاد ہندستان میں 7-8دہوں کی سیکولر سوشلسٹ اور مساویات پر مبنی جمہوریت کے باوجود سوسائٹی کے مزاج سے اس کو کھرچ کر نکالا نہیں جاسکا ہے۔اس نظریاتی نظام فکر و عمل میں مفادات کے آگے ہر چیزہیچ سمجھی جاتی ہے‘ چاہے ملک قوم یا دھرتی کی محبت اورنیک نامی ہی کیوں نہ ہو۔
پرانے واقعات کولحظہ بھر کے لیے کنارے کربھی دیا جائے تب فی زمانہ کئی ایک مثالیں موجود ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ کس طرح کی سونچ وَعمل سے یہ فسطائیت گزیدہ بھگوائی انسان نما حیوان گزرتے ہیں:منی پور جو ہمارے ہی ملک کا ایک انگ ہے اور تین3کے زیر نگیں آچکے تھے ‘بلکہ گورنر کے علاوہ بھاجپا ئی ممبران اسمبلی بھی گوہار لگاتے رہے‘ تاآنکہ۔۔۔ فورسیس کی موجودگی میں 2خواتین کوگلی کوچوں میں نہیں بلکہ شاہراہ پربرہنہ حالت میں ہجوم کی جانب سے دوڑانا ۔۔۔نیز ان کے حیائی حصّوں میں انگشت زنی نیزعصمت ریزی کا شرمناک ویڈیوسوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔۔۔تب کہیں جاکر سپریم کورٹ بھی بیدار ہوا اور سوموٹو ایکشن کی دھمکی سامنے آئی اور بحالت مرتا کیا نا کرتا پرایم منسٹر نے پارلیمنٹ کے باہر دو ایک منٹ کے دورانیہ کا کھیدبھی جتایا اور متوقع انتخابی ریاستوں مثلا! راجھستان اور چھتیس گڑھ(کانگریس رولنگ) کا نام لے کر ساری مشنری کو تقابلی گھن چکر ویو میں مصروف کردیا کر دیا ہے)
پارلیمنٹ میں منی پور پریکسوئی سے کامل بحث کے مطالبہ کو مسلسل ٹھکرایا گیا تآنکہ اپوزیشن کو عدم اعتماد کی تحریک لانا پڑا ؛یاد رہے کہ آج تک بھی پی یم منی پور کے لیے وقت فارغ نہ کرسکے؛امریکی سفیر اوریوین کی منی پور پر تشویش اور رپورٹ کا خارج کردیا گیا ؛ایڈیڑس گلڈ آف انڈیاکی منی پور دورے اور مابعد رپورٹ کے شائع کرنے پر وفد پر سنگین دفعات لگائی گئیں تاہم سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد وہ گرفتار ہونے سے بچ گئے۔
گجرات مسلم نسل کش فسادات پرBBCکی ڈاکیومنٹری کو بین کردیاگیا؛امریکہ میں ایک صحافی کی جانب سے مسلمانوں اور صحافت کی ابتر صورتحال پر مودی سے سوال کرنے پر اس کو اس حد تک ٹرول کیا گیا کہ خود وائٹ ہاؤز کو اس کے بچاؤ کے لیے سامنے آنا پڑا؛مذکورہ بالا واقعات کا تذکرہ اس لیے کیا گیا کہ چاہے بھارت کی شبیہ بیرون ملک جو کچھ بھی ہوجائے دیش کا میڈیا اور سرکار کی کوشش یہ رہتی ہے کہ وہ دیش میں اس کو بلیک آؤٹ کردیں گے اور ہر طرح کی کوشش کی جائے گی کہ سرکار اور قیادت کو مہان اوروشو گرو بتایا اور دکھایا جاتا رہے تاکہ بھاجپا ووٹ بنک میں اضافہ ہوتا رہے؛لیکن کیا یہ دیش بھکتی ہوسکتی ہے!!؟
Canadaکے ساتھ اسی طرز کی پبلسٹی اور دیش میں جئے جئے کار نیتی اپنائی جارہی ہے؛حالانکہ اس سے دو ممالک کے تعلقات کا بگاڑ دُور رَس اثرات بد اور بین الاقوامی فورم میں بھارت کی بدنامی کا موجب ہوگا۔نیز کینیڈا میں بسنے والے بھارتیوں اور NRIsپر اس کا کیا کچھ اثر پڑ سکتا ہے قابل تشویش ہے۔بلکہ اس آگ کی تپش برطانیہ پہنچ چکی ہے اور بلا اجازت گنیش پنڈال لگانے والوں کو ہتھکڑی لگا کر پولیس لے گئی ہے۔عرب دیشوں اور امارات میں بھی فکر کی لہریں اونچی ہوتی جارہی ہے اور بھارت سرکار کا کینڈا برتاؤ پر تاؤکھارہا ہے؛G20اجلاس کے اطرافPM کینڈا جسٹنTrudeauکے ساتھ ہمارا برتاؤ ہماری سنسکرتی کی ضد رہا ہے؛جہاز کی خرابی کے باعث وہ 2یوم بھارت میں رہے لیکن ان کے شایان شان ربط ضبط نہیں رکھا گیا؛
کینڈا پر دہشت گرد وں انتہا پسندوں اور آرگنائزڈ کرائم کے لیے کینڈا کو محفوظ جنت بنائے رکھنے کا الزام لگایا ہے (Safe haven for Terrorists, Extremists and for Organised Crime) کہ Trudeau نے ہردیپ سنگھ نجر کے مرڈر پر انڈین گورنمنٹ کے ایجنٹ کے رول کا تذکرہ کیا تھاجس کو مودی نے نکار دیا تھا۔امریکہ جس کے کینڈا کے ساتھ بیٹی روٹی کا رشتہ ہے نے پریس کانفرنس کے ذریعہ کینڈا کے الزام کی تحقیقات کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور امریکہ کینڈا کے مابین پیدا کی جانے والی کوششوں پر تنقید بھی کی ہے۔کینڈاترقی یافتہ ممالک بشمول امریکہ P5کا حصہ ہے؛دونوں ممالک نے اپنے سفیرکو واپس بلالیا لے اور انڈیا کی جانب سے کینڈا کے شہریوں کوویزا اجرائی روک دی گئی ہے۔لیکن بھارت کا میڈیا وشو گرو بھارت اور مودی کی جے کار میں جٹا ہوا ہے تاکہ دیس کے ووٹرس( کے سامنے شیخی بگھاری جائے)۔لیکن یہ طرز عمل مناسب نہیں ہے۔
نئی سنسد سنٹرل وِسٹا میں سنسنی خیز خواتین تحفظات بل پیش کرنے کی جلد بازی اورایونٹ بنانے کی پرانی خصلت نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے۔دستور کی ابتدائی کاپی کا دیا جانا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے جب کہ ان سات دہوں میں ترمیمات ہوئی ہیں اور لازم تھا کہ موجودہ ممکنہ ترمیم شدہ جدیدکاپی جس میں سوشلسٹ اور سیکولر مندرج ہے حوالے کی جاتی؛لیکن یہ بھاجپا کی دستور ہند بابت پرانی بے چینی کا چِن ہے کیونکہ انہوں نے دستور کے نفاذ کے وقت ہی اس پر اپنی مخالفت کااظہار کردیا تھا‘اور کچھ عرصہ پہلے ہی دستور کی تبدیلی اورنئے دستورکے لیے ان کی خواہش پبلک ہوچکی تھی؛چنانچہ وہ اپنی نام نہاد کوشش کے ذریعہ رام راج کے نام پر پس پردہ منو واد کو لاگو کرنے میں اس دستور کو اور اس میں مندرج سوشلسٹ اور سیکولرالفاظ اور سونچ و فکر کو اڑچن سمجھتے ہیں۔
نئی سنسد میں نفرت کے بازار اور محبت کا معاملہ بھی بھاجپا سانسدرمیش بھدوری کے ذریعہ سامنے آچکا ہے جب انہوں نے مذہب کو بنیاد بنا کر بسپا سانسد دانش علی کو غیرپارلیمانی الفاظ سے کہیں آگے جاکر دہشت گرد ‘مُلّا اور کٹوا وغیرہ کہہ دیا ہے حیرت یہ بھی کہ دیگر تجربہ کار بھاجپا MPsہنس رہے تھے اور ڈیسک پیٹ رہے تھے؛افسوس تو بسپا سپریمو مایا وتی پر بھی ہے کہ وہ اپنے ٹویٹ میں جہاں شمشاد علی کا نام لیا ہے تب وہیں پر بھاجپا مجرم MPرمیش بھدوری کا نام لینے کی ہمت بھی نہیں جُٹا پائی؛
لیکن کانگریس کے راہول گاندھی نے سالیڈاریٹی کی بنیاد پر دانش علی کے گھر پہنچے اور ہمت بندھائی کہ وہ خود کو اکیلا نہ محسوس کریں اور اپنی صحت کا خیال رکھیں؛حیرت ہے کہ اسپیکر نے کاروائی کے بطور کہاکہ اگر وہ پھر سے اس طرح اظہار کریں تو ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی؛دانش علی کا کہنا ہے کہ جب لوک سبھا میں ایک مسلم MPکے ساتھ ایسا کرنے کی ہمت دکھائی جاتی ہے تب گاؤں شہروں میں مسلمانوں کے ساتھ کتنا بھیانک معاملہ کیا جاتا ہے۔انہوں نے بھاجپا سرکار پر یہ بھی تنقید کی کہ اپوزیشن لیڈر Adhirرنجن چؤدھری کو جب ہاؤز سے باہر بھاجپا کرسکتی ہے تب معاملے کی سنگینی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ چار چھ ماہ کاجائزہ آشکار کرنے کے لیے کافی ہے کہ بھاجپا دیس کے اصلی اُمور وَمسائل پر بحث و مباحثہ سے بچنا چاہتی ہے اور کسی بھی حال مہنگائی بیروزگاری زراعتی مسائل تعلیم وصحت کی ابتر صورتحال روپیے کی گرتی قدر گھر گرہستی کی ابتر معاشی کیفیات لا اینڈ آرڈر میں ابتری کالے دھن کی بڑھوتری کے کالے کرتوت اظہار و احتجاج پر جکڑ بندی قرضوں سے جوجھتے پریوار اور خود کشی کے واقعات کو عوام کے درمیان گفتگو اور غوسر وفکر کا محور نہیں بنانا چاہتی ہے۔اینٹی انکمبنسی کا بھار اور وعدے وعید کی عدم تکمیل اور بھاجپا اورمودی کی گرتی ساکھ الگ سے دیمک بن چکی ہے۔
اپوزیشن کا اتحاد اور اس کی کامیاب میٹنگس مودی شاہ اور بھاجپا و Rssکے لیے ڈراؤنے سپنے بن چکے ہیں اور شکست کی ہیبت نیز سرکار کی تبدیلی کے بعد کھلنے والے کالے کرتوت اور فائلیں فکر مند کررہی ہیں۔خود بھاجپا میں بند اور مقفل زبانیں باغیانہ رُخ اپنانے کے لیے پر تول رہی ہیں۔چنانچہ ایک کے بعد دیگرے ٹاپک بکھری اور ٹوٹی مالا کے موتی کی طرح پلاننگ سے میڈیا اور پریس کے ذریعہ لائے جارہے ہیں۔اپوزیشن کو بھی اسی میں الجھا رکھا ہے۔
تلنگانہ تُکُّ گوڈاوِجئے بھیری جس میںسونیا گاندھی اور راہول نے 6اسکیمات کی گیارنٹی دی ہے‘اور بتایا جارہا ہے کہ کم و بیش دس لاکھ کی شرکت ہوئی ہے؛ظاہر ہے تلنگانہ میں TRS/BRSکے لیے راہیں آسان نہیں ہونگی۔امڈتاسیلاب کیا کایہ پلٹ یاتختہ تلپٹ کے اشارے تو نہیں دے رہا ہے۔دہلی کے آنند وِھار ریلوے اسٹیشن قلیوں سے ملاقات کرتے راہول نے جنتا قائد بننے کے ایک اہم مرحلہ کو سرکرلیا ہے۔چاہے لوک سبھا کا بھاشن ہویا پریس کانفرنس میں اظہار کی بیباکی وَپختہ خیالی راہول اب آنکھوں اور دِل میں بسنے لگے ہیں؛جب کہRssکا کروڑوں کا کیڈر ‘اندھ بھکت فوج‘دھن دولت اوراڈانی سے یاری‘میڈیا کی چاٹوکاری‘سرکار اور ایجنسیزکے پاور کے باوجود مودی دن بہ دن راہول کے مقابلہ میںبونے بنتے جارہے ہیں۔یہی فکر مودی کو کھائے جارہی ہے۔شکست سے کون خوف نہیں کھاتا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *