[]
محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد
٭ فتویٰ احکاماتِ قرآن کی روشنی میں جاری کیا جاتا ہے۔
٭ فتویٰ حکم الٰہی ہے۔حکم پر عمل درآمد مسلمانوں پر فرض ہے۔
٭ تقسیم ترکہ سے متعلق واضح احکامات قرآنِ مجید میں پڑھنے کی ضرورت ہے۔ سورۃ النساء ۔
٭ حق پہنچنا چاہیئے ائے مومنو حقدار کو۔
ایک دلخراش واقعہ ۔ برقعہ پوش ایک خاتون دفتر میں داخل ہوئی۔ داستان سنانے بیٹھ گئی۔ ہچکیوں کی رکاوٹ‘ آنکھوں سے آنسو رواں۔ چہرہ پر نظر ڈالی گئی تو دیکھا آنکھیں کیا ہیں گویا شکستہ مرقدوں میں حسرتوں کی لاشیں! دریافت پر پتہ چلا کہ وہ کنواری ہے۔ فی الوقت بھائی بقیدِ حیات تھے ‘ گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی تھی۔ بھائی کی زندگی ہی میں سارے گھر اور دیگر جائیدادوں اور تجارت پر بھاوج کا قبضہتھا۔ بھائی اپنی بیوی کی زیادتیوں کے آگے بے بس تھے۔ گھر میں بھائیوں اور باپ کا قبضہ تھا۔ تجارت پر بھی بھائیوں نے قبضہ کررکھا تھا۔ مرحوم بھائی نے کئی جائیدادیں چھوڑیں۔ کافی دولت مند تھے ۔ گھر پر دوکاریں تھیں۔ ملازمین بھی تھے۔ بھاوج ہمیشہ بھائی کو لعنت ملامت کرتی رہتی تھی جس کی وجہ ان کی شرافت اور خاموشی تھی۔ گھر میں ہر رشتہ داروں کی آمد پر پابندی تھی۔ زندگی میں تنِ تنہا رہ گئے تھے اور صرف بہن ہی سے اپنی مظلومیت کی شکایت کرتے رہتے تھے۔ مظلومیت اتنی کہ کچھ کہہ سکتے تھے اور نہ ہی کچھ کرسکتے تھے۔ جائیداد کے تمام دستاویزات ۔ نقد رقومات۔ زیورات پر بھاوتج کا قبضہ تھا۔ وہ دوسری شادی بھی نہ کرسکتے تھے کیوں کہ ان کی ایک مجبوری بھی جس کا میں اظہار بھی نہیں کرسکتی۔
بھائی کے انتقال کے کچھ دنوں بعد مجھ پر ظلم و ستم کی انتہاء نہ رہی۔ نہ وقت پر کھانا دیاجاتا اور نہ کسی ضرورت کا خیال رکھا جاتا۔ جب بھی کچھ مانگتی تو کہتے بس بہت ہوچکا ۔ اپنا کہیں اور انتظام کرلو ۔ آخرِ کار ظلم و ستم اور بے عزتی برداشت نہ ہوسکی اورمیں اپنی خالہ کے گھر آگئی۔ مجھے خالہ نے کہا کہ بھائی کی جائیدادوں میں تمہارا دو آنے کا حصہ بنتا ہے۔ اگر تم کوشش کرو تو تمہیں وہ حق مل سکتا ہے۔ خالہ بہت ہی مہربان خاتون ہیں اور میں ان کے گھر میں سکون و آرام سے ہوں اور مجھے یہاں کوئی تکلیف نہیں۔ وہ اور میرے بھانجے میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ایک دن خالہ بھاوج کے گھر گئیں اور کہا کہ اس کا دو آنے کا حق دے دو‘ کیوں ایک مظلوم کنواری لڑکی پر ظلم کرکے اس کا حق دبائے بیٹھی ہو۔ اس پر بھاوج خالہ کو برا بھلا کہنے لگی اور گھر سے نکل جانے کو کہا۔ اس نے کہا دو آنے تو کیا ایک نیا پیسہ بھی نہیں دوں گی۔ بڑی آئی حق جتانے والی۔
خالہ واپس آگئیں۔ خالو صاحب نے کہا کہ منصف اخبار میں ہر اتوار کے دن ایک وکیل صاحب کا بیان آتا ہے۔ چلو ان سے مل کر بات کرتے ہیں۔ خالو صاحب اور خالہ صاحبہ باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگراجازت دیں تو انہیں اندر لے آؤں۔ لڑکی سے کہا گیا کہ اس میں اجازت کی کیا ضرورت ہے۔ انہیں اندر لے آئیے۔ لہٰذا دونوں میاں بیوی اندر آگئے اوران دونوں نے جوباتیں بتائیں ناقابل بیان ہیں۔ سراسرظلم وستم ۔ زیادتیاں۔ غاصبانہ عمل ‘ جہالت اور گمراہی۔
مزید دریافت پر خالو صاحب کہنے لگے کہ مرحوم کی تمام جائیدادوں کی میرے پاس تفصیل ہے کیوں کہ یہ جائیدادیں مرحوم نے میرے ہی توسط سے خریدی تھیں۔ ان جائیدادوں میں ٹولی چوکی‘ بنڈلہ گوڑہ اور چندرائن گٹہ میں کئی پلاٹس ہیں‘ کئی مکانات ہیں۔ ان کا کرایہ بھی لاکھوں میں آرہا ہے۔ اگر تمام جائیدادوں کی قیمت کا اندازہ کیا جائے تو زائد از سو کروڑ روپیہ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے نہ تو کوئی وصیت کی تھی اور نہ ہی ان کی گفٹ رجسٹری بیوی کے نام کی تھی۔ میں نے تمام جائیدادوں کی (E.C) نکال لی اور ساتھ ہی بیع ناموں کی مصدقہ نقل بھی ہے۔ آپ برائے مہربانی اس غریب لڑکی کو اس کے حق کے دو آنے دلادیجئے۔ مہربانی ہوگی۔
خالو صاحب سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے اس ضمن میں کوئی فتویٰ حاصل کیا ہے ۔ جواب ملا کہ نہیں۔ تو ان سے کہا گیا کہ آپ کس اساس پر کہہ رہے ہیں کہ اس لڑکی کا حصہ اس کے بھائی کے ترکہ میں دوآنے ہے۔ نہوں نے کہا کہ ہر کوئی کہتا ہے کہ بہن کا حصہ دوآنے کا ہوتا ہے یعنی آٹھ میں ایک ۔
ان سے کہا گیا کہ آپ ایک زبردست غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ اس بہن کا شرعی حصہ دو آنے ہو ہی نہیں سکتا بلکہ اس لڑکی کا حق اس کے مرحوم بھائی کی تمام جائیدادوں ۔ نقد رقومات اور تجارت پر بارہ آنے ہے۔ یعنی تین چوتھائی اس واحد بہن کا حصہ بنتا ہے اور ان کی بیوہ کو صرف چار آنے یعنی ایک چوتھائی حصہ وہ بھی اس لئے کہ مرحوم لاولد تھے اور اگر ان کو اولاد ہوتی تو بیوہ کا حصہ آٹھواں ہوتا اوراس صورت میں یہ بہن محروم ہوتی اگرمرحوم کو کوئی نرینہ اولاد ہوتی۔ اگر ان کو صرف بیٹیاں ہی ہوتیں تو ان تمام کا حصہ دوتہائی ہوتا اور بیوہ کا آٹھواں حصہ ۔ پھر بھی تقریباً ایک چوتھائی حصہ اس لڑکی کا حق بنتا ۔ دو آنے کا حق غلط مفروضہ نہ جانے کتنے حقوق کو سلب کرچکا ہے۔
ان تمام کو رائے دی گئی کہ اولین فرصت میں مغرور اور لالچی بھاوج کے نام تقسیم ترکہ کی قانونی نوٹس جاری کروائیں جس میں تمام جائیدادوں کا تذکرہ ہو اوران جائیدادوں کی قیمتوں کا بھی مطالبہ کیا جائے کہ ازروئے شریعت اور ملکی قانون اس لڑکی کے تمام متروکہ میں تین چوتھائی حصہ ہے جسے پندرہ دن کے اندر تقسیم کرکے اس کے حوالے کیا جائے اور مابقی ایک چوتھائی حصہ مغرور بھاوج اپنے لئے رکھے۔ اگر نوٹس کے مطالبہ پر اندرون مدت 15 دن عمل نہیں کیا گیا تو تقسیم ترکہ کا مقدمہ سیول عدالت میں دائر کیا جائے گا اور انجنکشن آرڈر حاصل کیا جائے گا کہ تمام جائیدادوں کا موقف جوں کا توں برقرار رکھا جائے اور ساتھ ہی تمام جائیدادوں کی آمدنی عدالت میں جمع کروانے کا حکم لیا جائے گا۔
اس مقصد کے حصول کے لئے کروڑوں روپیہ مالیتی جائیداد کے مقدمہ میں کورٹ فیس صرف دو سو روپیہ ہوگی ۔ اگر آپ نے یہ عمل کیا اور نوٹس جاری کی تو یہ نوٹس کارپٹ بامبنگ کا کام کرے گی اور مغرور بھاوج کا غرور پارہ پارہ ہوجائے گا اور وہ اس غریب اور مظلوم لڑکی کے رحم و کرم پر ہوگی اور اس سے رحم کی درخواست کرے گی۔
وہ لوگ جو تقسیم ترکہ میں تاویلات کرتے ہیں وہ فہم دین سے عاری ہیں۔ بہتر صورت یہ ہوگی کہ ایسے مسائل میں شہر کی سب سے بڑی دینی درسگاہ سے فتویٰ حاصل کیا جائے۔ فتویٰ احکام الٰہی ہے اور اس پر عمل درآمد مسلمانوں پر فرض ہے۔ اگر احکاماتِ الٰہی میں کوئی تاویل کی گئی اور عمل نہیں کیا گیا تو ایسا عمل یا بے عملی گناہ سے تعبیر کیا جائے گا جس کی سخت وعید قرآن مجید میں ہے۔ فتویٰ کیا ہے؟ اللہ تبارک تعالیٰ کا حکم بغیر کسی کمی بیشی اور تزئین اور آرائش کے پیش کردینا۔ فتویٰ حاصل ہونے کے بعد اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو یہ بہت بری بات ہوگی۔ لیکن افسوس صد افسوس آج کل شہر کی سیول عدالتوں میں تقسیم ترکہ کے مقدمات کے انبار ہیں۔ وہ صرف اس لئے کہ مسلمان یا تو احکاماتِ الٰہی سے غافل ہیں یا جان بوجھ کر اپنی شیطانی تاویلات کا سہارا لیتے ہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ وہ کہیں تمہارا مال اور اولاد تمہیں یادِ الٰہی سے غافل نہ کردیں۔ اگر ایسا ہو تو وہ لوگ سخت خسارے میں ہوں گے ۔ تقسیمِ ترکہ کا قرآنی حکم بھی یادِ الٰہی ہے۔
تقسیمِ ترکہ کیلئے عدالت سے رجوع ہونے کی ضرورت ہی نہیں
بغیر رجسٹری کے تقسیم نامہ تیار کرنے میں مسئلہ کا حل موجود
تقسیم ترکہ کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں۔ نہ عدالت جانے کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی رجسٹریشن کی حاجت پیش آئے گی ۔ اگر سب ورثاء متفق الخیال ہوں تو آپسی تقسیم نامہ مسئلہ کے حل کے لئے کافی ہوگا اور ہر حصہ دار اپنے حصہ میں آئی ہوئی جائیداد پر قبضہ حاصل کرلے گا۔ لیکن یہ کام باہمی رضامندی سے ہی ہوسکتا ہے۔ اگر تقسیم میں کچھ کم زیادہ بھی ہو اور اس پر سب ورثاء متفق الخیال ہوں تو بہت ہی بہتر ہوگا کیوں کہ عدالت سے رجوع ہوکر وقت اور پیسہ برباد کرنے سے لاکھ درجہ بہتر یہ عمل ہوگا کیوں کہ عدالت کا بھی یہی فیصلہ ہوگا تو پھر عدالت جانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئے گی۔
تقسیم ترکہ کا مقدس کام اگر زندگی ہی میں بذریعہ
زبانی ہبہ میمورنڈم کردیاجائے توایک احسن اقدام ہوگا
اگر یہ مقدس کام زندگی ہی میں کردیا جائے تو بعد از مرگ اولاد نہ تو ناانصافی سے کام لے کر گناہ کا ارتکاب کرے گی اور نہ کوئی وارث ہمیشہ کے لئے محروم ہوجائے اگ۔ ہر کوئی مالدار بننا چاہتا ہے اور اس کیلئے وہ دوسروں کو محروم کرسکتا ہے۔ گھر میں بڑے بھائی کی حکمرانی ہوتی ہے اور وہ اپنی مرضی سے سب کچھ کروالیتا ہے اور ایسی متعدد مثالیں سامنے آئی ہیں کہ بہنیں یکسر محروم کردی گئیں اور یہ تاویل پیش کی گئی کہ شادی کے وقت بہنوں کو بہت کچھ دیا گیا اور بہنوں یا بیٹیوں کو ترکہ دینے کا ہمارے پاس دستور نہیں ہے۔
ایامِ جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا اور آج کی دنیا میں ترکہ سے محروم بیٹیاں زندہ درگور ہیں۔ مال و دولت کی کثرت کی چاہ میں انسان اتنا آگے بڑھا کہ آخرِ کار وہ اپنی قبروں تک جاپہنچا۔ مال ایمان کی کسوٹی ہے۔
لہٰذا اپنے بیٹوں کو گناہ سے محفوظ کرنے اور اپنی بیٹیوںکو ان کا حق دینے کے لئے اگر زندگی ہی میں یہ نیک کام کردیاجائے تو بہت ہی احسن اقدام ہوگا بشرطیکہ ہدایت ہو۔
کئی لوگوںنے اس نیک کام کا ارادہ کیا تھا لیکن وہ نہ کرسکے اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یتیم پوتے۔ پوتیوں کے حق میں سب سے پہلے اس کام کی تکمیل کی ضرورت ہے کیوں کہ آپ کے بعد وہ محروم ہوجائیں گے اور آپ کے بیٹے شریعت کی آڑ لے لیں گے ۔ انہیں ایسا مت کرنے دیجئے اور اولین فرصت میں یہ کام سرانجام دے دیجئے کیوں کہ سانس کی ڈور بہت نازک ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰