سعودی عرب: حاجیوں کے لیے بے مثال خدمات و انتظامات

[]

سعودی عرب کو اگر یہ سعادت حاصل ہے کہ وہاں مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ اور حج و عمرہ جیسی عبادتیں ہیں، تو اس کے لیے بہترین نظم و نسق، دینی جذبہ اور مخلصانہ مزاج سے خود کو اس کا اہل ثابت بھی کرتا ہے۔

عازمیں حج، تصویر بشکریہ ٹوئٹر @hsharifain
عازمیں حج، تصویر بشکریہ ٹوئٹر @hsharifain
user

گزشتہ چند سال کورونا کی وجہ سے حج بہت حد تک معطل رہا۔ ان سالوں میں صرف گنے چنے مقامی افراد نے حج کیا اور گزشتہ سال بھی کورونا سے پہلے حج کرنے والوں کی عام تعداد کے مقابلہ تقریباً ایک تہائی تعداد نے ہی حج کیا، لیکن اللہ کا فضل ہے کہ اس سال حسب سابق پوری دنیا کی ایک بڑی تعداد نے حج کا فریضہ ادا کیا۔

موصولہ اعداد و شمار کے مطابق اس سال یعنی 2023 میں 150 ملکوں سے 18 لاکھ 45 ہزار 450 عازمین نے حج کی سعادت حاصل کی۔ ان میں 16 لاکھ 60 ہزار 915 عازمین بیرونِ ملک سے آئے اور سعودی عرب میں مقیم غیر ملکیوں کی تعداد 1 لاکھ 84 ہزار 130 رہی۔ عرب ممالک سے 21 فیصد، ایشیائی ممالک سے 5.63 فیصد، افریقی ممالک سے 4.13 فیصد جبکہ یورپ، امریکہ، آسٹریلیا سے 1.2 فیصد عازمین پہنچے اور جون کی سخت ترین گرمی میں سال 2023 کا ہونے والا حج اختتام کو پہنچا اور الحمدللہ کسی قسم کے کسی ناخوشگوار واقعہ کی کوئی بھی بات سامنے نہیں آئی۔

کورونا دور کے بعد اس پہلے عام حج میں حاجیوں کی حفاظت اور سلامتی کے لیے بڑے پیمانہ پر انتظامات کئے گئے تھے۔ دورانِ حج حاجیوں کی صحت و تندرستی کے پیش نظر مختلف مقامات یعنی مکہ و مدینہ، منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں طبی مراکز کا قیام نظر آ رہا تھا۔ سخت گرمی کو دیکھتے ہوئے پانی کا معقول بندوبست، مصنوعی بارش کے پھوار اور پانی کی بوتلوں سے سیکورٹی پر مامور افراد کو حاجیوں کے سروں پر پانی ڈالتے اور کہیں کہیں ہاتھ کے پنکھے تک جھلتے ہوئے دیکھا گیا۔

حاجیوں کی رہنمائی کے لیے علماء کرام اور مترجمین کی خاطر خواہ تعداد کی مقامات حج میں موجودگی، حج کو آسان بنانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ پروگرامز، حرمین شریفین اور مشاعر مقدسہ میں صفائی ستھرائی اور استنجا خانوں کا معقول نظم، سڑکوں کی عمومی سیکورٹی اور نگرانی کے لیے پہلی مرتبہ ڈرونز سروس کا استعمال، غرض تمام پہلؤوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام تر ممکنہ وسائل و ذرائع اور جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا گیا اور حاجیوں کی سہولت کیلئے حیرت انگیز اور قابل تعریف انتظامات کئے گئے اور اس طرح سال 2023 کا حج شاندار طریقہ سے اختتام کو پہنچا۔

حرم مکی میں بھیڑ جمع نہ ہونے دینے کیلئے پہلے سے ہی حاجیوں کو مختلف حصوں، خاص طور پر توسیع شدہ حصہ اور حرم کی دوسری اور تیسری منزل میں پہونچانے کا منظم پروگرام اور مشاعر مقدسہ میں کسی طرح کے ناخوشگوار حادثہ سے بچنے کی خاطر ’ون وے‘ یعنی یکطرفہ آمد و رفت کی سختی سے پابندی اور منی میں حاجیوں کے کیمپ سے متصل سڑکوں پر گاڑیوں کی آمد و رفت پر مکمل پابندی اور اس طرح جمرات میں آنے جانے میں ہر طرح کی دقت یا پریشانی کے سدباب کی کاوشیں بھی قابل توجہ رہیں۔ حالانکہ اس کی وجہ سے کبھی کبھی حرم میں طواف شروع کرنے سے پہلے کافی لمبی مسافت طے کرنی پڑتی اور منی میں راستہ بھولنے کی صورت میں اپنے کیمپ تک پہونچنے میں تین چار کلومیٹر کی مسافت مزید چلنا پڑتا جو بڑی عمر اور بیمار حجاج کے لئے کسی قدر گراں ہوتا۔

کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کو اگر یہ سعادت حاصل ہے کہ وہاں مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ اور آخری نبی کا مرکز ہے اور حج و عمرہ جیسی عبادتیں وہاں جائے بغیر ادا نہیں ہو سکتیں، تو وہ حج و عمرہ کے اعلی و بہترین نظم و نسق اور دینی جذبہ، خیر خواہی اور مخلصانہ مزاج کے تحت سخاوت و فیاضی اور دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری دنیا کے زائرین کے لیے اعلی ترین خدمات پیش کر کے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرنے کی پوری کوشش بھی کرتا ہے۔

اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اس سال مجھے بھی حج کی سعادت اس ہندوستانی وفد میں شامل ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی جس کے تحت سعودی حکمراں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مختلف ملکوں سے ملی، تعلیمی، دعوتی، طبی، صحافتی، سماجی اور دیگر اہم میدانوں میں متحرک اور مؤثر کردار ادا کرنے والے 1300 افراد کو شاہی خرچ پر حج کیلئے مدعو کیا۔ یہ ہندوستانی وفد 5 خواتین سمیت 50 سے زائد مختلف ملی جماعتوں کے ذمہ داروں، بڑے تعلیمی اداروں کے نمائندوں، ممتاز علماء کرام، بعض یونیورسٹی کے بانیوں، وائس چانسلر، پروفیسروں، صحافیوں، ڈاکٹروں اور انفرادی طور پر منظم انداز میں سرگرم کردار ادا کرنے والے نمایاں افراد پر مشتمل تھا۔

شاہی مہمانوں کو مکہ مکرمہ میں نوواٹیل اور مدینہ منورہ میں زمزم پل مین جیسے اعلی ہوٹلوں اور عرفات و منی میں شاہی مہمانوں کے لئے خاص متعین خیموں میں ٹھہرایا گیا۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پہنچنے پر وزارت اسلامی امور کے ذمہ داروں کی طرف سے ایسا پرتپاک استقبال جسے فراموش کرنا ناممکن، اور پھر خود وزیر اسلامی امور شیخ ڈاکٹر عبداللطیف آل الشیخ کی تشریف آوری، انتظامات کا جائزہ، لوگوں سے ملاقات، انتظامات کے تعلق سے ان سے گفتگو اور ہر جگہ کھانے پینے کا ایسا زبردست اور معقول انتظام کہ اس طر ح کے متنوع، متعدد اور لذیذ کھانوں، پھلوں، مشروبات، مٹھائیوں غرض ہر طرح کی ہر وقت من پسند اور حسب خواہش غذاؤں کا انتظام کوئی عام اور معمولی بات نہیں۔

بعض تاریخی مقامات کی زیارت، غلاف کعبہ فیکٹری میں جا کر اس کی تیاری اور بُنائی کے مختلف مراحل کی جانکاری اور اس کا مشاہدہ، مختلف انبیاء اور آخری نبی پر نزول وحی کی حقیقت جاننے کے لئے ’معرض الوحی‘ لے جانا، حرم مکی، مشاعر مقدسہ اور مدینہ میں تاریخی مقامات اور مسجد قبا آنے جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظام، تمام مہمانوں کی طرف سے حج کی قربانی بھی شاہی خرچ پر کرنے کا اہتمام، دہلی ایئرپورٹ سے روانگی اور جدہ ایئرپورٹ سے واپسی تک تمام مقامات پر ان کے نمائندوں کی موجودگی اور کارروائی میں ہر طرح کی سہولت اور تعاون بھی قابل ذکر ہے۔

اس سال شاہی خرچ پر حج والے مختلف ملکوں کے صرف یہی 1300 افرادہی نہیں تھے بلکہ شاہ سلمان نے خانہ جنگی سے دو چار ملک سوڈان کے مختلف لوگوں کے حج کا انتظام خصوصی طور پر اپنے خرچ پر کیا تھا اور فلسطین کے لوگوں سے اظہار ہمدردی اور فلسطینی شہداء اور زخمیوں کی اشک سوئی کی خاطر بعض شہدا کے اہل خانہ اور بعض زخمیوں کو بھی شاہی خرچ پر مدعو کیا تھا۔ اسی طرح یمن میں حوثیوں سے ہونے والی جنگ میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ اور زخمیوں کو بھی شاہی خرچ پر حج کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔ اس طرح اس سال شاہی خرچ پر حج کرنے والوں کی کل تعداد تقریبا پانچ ہزار تک پہنچ گئی۔

اس سال حج کا خطبہ ڈاکٹر یوسف بن محمد بن سعید نے دیا۔ انھوں نے مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد پر زور دیا اور اسے دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کا ذریعہ قرار دیا، انتشار و افتراق کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ شیطان مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا چاہتا ہے، کسی مسئلہ میں اختلاف ہو جائے تو قرآن اور سنت کی طرف رجوع کرنے، توحید خالص پر قائم رہنے اور ہر پریشانی میں اللہ سے رجوع کرنے کی تلقین کی اور کہا کہ اللہ کا نافرمان جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ دنیوی و اخروی تمام معاملات میں اللہ کے حکم پر عمل کی دعوت دی۔ نماز، زکوٰۃ، غریبوں کی مدد پر بھی زور دیا اور کہا کہ اسلام میں تقویٰ کے علاوہ کسی بنیاد پر تفریق درست نہیں اور بتایا کہ اچھے اخلاق سے دوسروں کے دل میں جگہ پیدا ہوتی ہے، عفو و درگزر مسلمانوں کی علامت ہے۔ شریعت کا مقصد لوگوں میں محبت پیدا کرنا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک، بیوی-بچوں اور رشتہ داروں کے حقوق، غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ اچھے برتاؤ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی شخص جب تک اپنے بھائی کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش نہ آئے مسلمان نہیں ہو سکتا۔


;

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *