[]
مہر خبررساں ایجنسی نے “تاس” کے حوالے سے خبر دی ہے کہ نیویارک میں اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر روس، ایران اور ترکیہ کے وزرائے خارجہ نے ان کیمرہ ملاقات کی۔
رپورٹ کے مطابق، روس، ایران اور ترکی کے سینیئر سفارت کاروں، سرگئی لاوروف، حسین امیرعبداللہیان اور ہاکان فیدان نے جمعے کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر آستانہ اجلاسوں کے تسلسل کے طور پر ملاقات کی۔ اس ملاقات سے پہلے لاوروف اور امیرعبداللہیان نے ایک دوسرے کے ساتھ مختصر گفتگو کی اور بعد میں فیدان بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے۔ فوٹو سیشن کے بعد تینوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے بند کمروں میں میٹنگ جاری رکھی۔
توقع ہے کہ روس اور ایران کے سینئر سفارت کار الگ الگ ملاقات کریں گے۔ اس کے علاوہ شامی امور کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی ایلچی “گیر پیڈرسن” بھی تینوں وزرائے خارجہ کے ساتھ شامل گفتگو ہوئے۔
اس سے قبل رواں سال جون کے آخر میں بیسویں آستانہ سربراہی اجلاس کے فریم ورک میں ایران، روس، شام اور ترکیہ کے وفود کے مذاکرات شروع کیے گئے تھے۔
ترکیہ اور شام کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے روڈ میپ کے معاملے پر پہلی بار آستانہ میں ہونے والے حالیہ چار فریقی اجلاس میں بات چیت کی گئی، جس میں اقوام متحدہ کے نمائندے کی موجودگی بھی تھی۔
اس ملاقات میں انقرہ کے وفد کی سربراہی ترکیہ کے نائب وزیر خارجہ بورک اکچاپار نے کی جب کہ ماسکو کے وفد کی سربراہی روسی نائب وزیر خارجہ میخائل بوگدانوف اور تہران کے وفد کی سربراہی ایرانی وزیر خارجہ کے مشیر برائے سیاسی امور علی اصغر خاجی اور دمشق وفد کی سربراہی شام کے نائب وزیر خارجہ ایمن سوسان کر رہے تھے۔یہ چار فریقی ملاقات تقریباً 2 گھنٹے جاری رہی۔
آستانہ کے 20ویں اجلاس میں جو اس سال جون کے آخر میں منعقد ہوا، شرکاء نے شام کی خودمختاری، آزادی، اتحاد اور علاقائی سالمیت کی مضبوطی سے پاسداری پر زور دیا۔ “آستانہ 20” مذاکرات کے شرکاء نے ترکیہ اور شام کے تعلقات کی بحالی کے لیے موثر کوششیں جاری رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
اس بیان میں شام میں مرضی کے منظرنامے تراشنے اور مسلط کرنے کی تمام کوششوں جیسے علاحدگی پسندی کے غیرقانون منصوبوں کو مسترد کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے تعاون جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
آستانہ اجلاس میں موجود شرکاء نے اپنے بیان میں شام کی سرزمین بالخصوص شہری مراکز پر صیہونی حکومت کے حملوں کی مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قوانین اور شام کی خود مختاری اور ارضی سالمیت کی خلاف ورزی اور عدم استحکام کا باعث قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی حکومت کو بین الاقوامی قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے شامی گولان کے علاقے پر غیر قانونی قبضے کو ختم کرنا چاہئے۔ اس بیان میں شام کے خلاف ان تمام یکطرفہ پابندیوں کے خاتمے پر بھی زور دیا گیا جو بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔
آستانہ اجلاس کے شرکاء نے اپنے بیانئے میں زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں انسانی امداد بھیجنے میں شامی حکومت کے تعاون کا خیرمقدم کرتے ہوئے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور اس سے منسلک انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کیا شام کے تمام علاقوں میں اپنی امداد کو بڑھائیں اور اس ملک کے بنیادی ڈھانچے بشمول پانی، بجلی، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے کوشش تیز کر دیں۔