[]
مولانا سید احمد ومیض ندوی(استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد)
کسی بھی قوم کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی نئی نسل ہے، بچے قوم کا مستقبل ہیں،انہی پر قوم کی ترقی اور عروج کا دارومدار ہے، آج کے بچے کل کے رہنما ہوتے ہیں، بچوں کی اسی اہمیت کے سبب اسلام میں بچوں کی تربیت پر کافی زور دیا گیا ہے، والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری اولاد کی صحیح تربیت قرار دی گئی ہے، ماں باپ کا دیندار ہونا اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ بچوں کی اسلامی خطوط پر تربیت کرسکیں، نکاح میں نیک رشتہ کے انتخاب پر زور دیا گیا ہے، تاکہ نیک میاں بیوی اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرسکیں، تربیت ِاولاد کا مسئلہ اس لیے اہم ہے کہ یہ در اصل اپنی نئی نسل کو جہنم کی آگ سے بچانے کا کام ہے، قرآن مجید میں اہل ایمان کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ خود کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچائیں، ارشاد ِربانی ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْْہَا مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا یَعْصُونَ اللَّہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُون۔(التحریم:۶) اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اور جس پر تند خواور سخت فرشتے مقرر ہوں گے، وہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کریں گے اور جو کچھ انھیں حکم دیا گیا ہے اسے بجا لائیں گے۔
دشمنانِ اسلام نے روز ِاول سے مسلمانوںکو دین حق سے برگشتہ کرنے کے لیے مسلمانوں کی نئی نسل کو نشانہ بنایا ہے، انھیں اندازہ ہے کہ نئی نسل کی بے راہ روی پوری قوم کو دین سے دور کردے گی، نسل نو کو تباہی کے راستے پر لے جانے کے لیے یہود ونصاریٰ نت نئے حربے استعمال کرتے آئے ہیں، صہیونی ومغربی کارندے ایسی ایسی ایجادات اور حربے اختیار کرتے ہیں جن سے تسخیر اذہان کا کام لیا جاتا ہے، تسخیر اذہان اسلام دشمن صہیونی طاقتوں کا احمد ترین ہتھکنڈہ ہے، جس کے ذریعہ وہ سادہ لوح معصوم بچوں کا شکار کرتے ہیں، بجے بالعموم کچے ذہن کے حامل ہوتے ہیں، اور ان کے ذہن بہت جلد اثر قبول کرلیتے ہیں۔
تسخیر اذہان کے صہیونی ہتھکنڈے : اسلام دشمن صہیونی وصلیبی طاقتیں نسل نوکے اذہان کو مسخر کرنے کے لیے جن مختلف ہتھکنڈوں کو استعمال کرتی ہیںان میں ایک جادو اور سفلی عملیات ہیں،جادو بدترین گناہ اور انسانی تباہی کا سامان ہے، دنیا کے تقریباً تمام مذاہب میں جادو کو قابل مذمت قرار دیا گیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے،یہود جہاں سائنس میں ساری اقوام عالم پر حاوی ہیں وہیں جادو اور سفلیات میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں، جادو کے ذریعہ وہ مختلف مذاہب کی سرکردہ شخصیات کو اپنے منشأ کے مطابق مسخر کرتی ہیں، مختلف مسلم مذہبی شخصیات کی بے راہ روی میں جادو کا بڑا دخل ہے۔
جادو کے علاوہ تسخیر اذہان کے لیے جن ہتھکنڈوں کو صہیونی استعمال کرتے ہیں ان میں ایک ایم کے الٹرا ہے، ’’یہ سادہ لوح اجنبی انسانوں کے ساتھ کھیلا جانے والا وہ کھیل ہے، جس کی نگرانی ’’تھنک ٹنکس‘‘ سائنسداں اور یہودی سرمایہ کار کرتے ہیں، رینڈ کارپوریشن اس کا نگران ایون کیمرون جیسے ذہین یہودی اس کے کوچ اور راک فیلر جیسا یہودی اس کا اسپانسر ہے، ایم کے سے مراد مائنڈ کنٹرول ہے، اس میں ذہنوں سے کھیلا جا تا ہے، ان کی مرضی کے بغیر ان کے دماغوں کو مخصوص پیغام بھیجے جاتے ہیں، لہروں اور شعاعوں کے ذریعہ تسلسل کے ساتھ بھیجے گئے پیغامات لوگوں کے ذہنوں کو رفتہ رفتہ بے خود کردیتے ہیں، اور خود فراموشی کے عالم میں وہ سب کچھ کربیٹھتے ہیں جو برادری ان سے چاہتی ہے‘‘۔
تسخیر اذہان کا دوسرا ذریعہ مائیکرو چپس ہے، یعنی ایسی چپس ایجاد ہوگئی ہے جس سے ’’ہائی فریکونسی مائیکروبیمز‘‘ خارج ہوتی رہتی ہیں، یہ جب کسی کے بدن میں چپکا دی جائے تو اس کے دماغ میں آوازیں گونجنے لگتی ہیں، اور وہ انسان روبوٹ کی طرح ہر حکم کی تعمیل کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
تسخیر اذہان کی تیسرا ذریعہ شارٹ ویثرن ہے، ٹی وی ویڈیوز کے ذر یعہ آج مسلم روشن خیال لوگ اپنی معلومات میں اضافہ اور ذہن کو وسیع کررہے ہیں، لیکن آپ کے وہم وگمان میں بھی نہیں کہ یہ بے ضرر دکھائی دینے والا آلہ آپ کے ذہن کو کس قدر خراب کررہا ہے، ہم جو متحرک تصویر اسکرین پر دیکھتے ہیں وہ ایک سکنڈ میں ۴۵ فریمیز یا فوٹو پر مشتمل ہوتی ہے، اب اس ایک سکنڈ کے درمیان ایک ساکن تصویر دکھائی جائے تو یہ سکنڈ کا ۴۵ واں حصہ لیتی ہے، جسے ہماری آنکھ تو نہیں دیکھ سکتی لیکن ہمارا لاشعور اور اندرونی طاقت اسے نہ صرف محسوس کرتی ہے بلکہ اس سے متأثر بھی ہوتی ہے۔تسخیر اذہان کا ایک ذریعہ ہیک ٹریکنگ ہے، ذہنوں کو گرفت میں لینے کی ایک تیکنک ہیک ٹریکنگ ہے، موسیقی کے شائقین جو کچھ سنتے ہیں وہ ٹریک کا فاروڈ پلے ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی ریورس میں ٹریک میسج چھپا ہوتا ہ، اور یہ ہمارا شعور اور قوت ِسماعت گرفت نہیں کرپاتی، لیکن ہمارا لاشعور اسے قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا، آپ شیڈوز کیسٹ اسی طرح پوپ سونگ ، راوک سونگ سننے والے نوجوانوں کی دیوانگی کو دیکھیں، کیا چیز ہے جو ان کے اندرون وبیرون کو بدل کر رکھ دیتی ہے، شریعت نے یوں ہی تصاویر وغیرہ کو تھوڑے ہی حرام کیا ہے، یہ تلبیسات ہیں اور شیطان کے ڈبے ہیں(بحوالہ دجال ۲، مفتی ابولبابہ شاہ منصور )
کارٹون (CARTOON): تسخیر اذہان کے منجملہ ذرائع میں ایک اہم ذریعہ کارٹون ہیں، دیگر ذرائع کی طرح کارٹونس بھی صہیونی وصلیبی کارندوں کی نئی نسل کو تباہ کرنے کی زبردست سازش ہے، کارٹون کا مطلب اصل سے ملتا جلتا خطوط یا لیکروں کا بنایا ہوا خاکہ یا تصویر جس سے مزاح کا رنگ پیدا ہو، ویسے کارٹونوں کا اطلاق اخبارات ورسائل میں چھپنے والے اور پردۂ سیمی پر دکھائے جانے وال تفریحی یا مزاحیہ خاکے دونوں پر ہوتا ہے، لیکن یہاں جن کارٹونوں کی تباہ کاریوں کا ذکر مقصود ہے ان سے پردۂ سیمی پر دکھائے جانے والے کارٹون ہیں، جن کے باقاعدہ چینلز ہیں اور جو باقاعدہ انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔
کارٹون کی اہمیت : کارٹون شروع سے نہ صرف بچوں کے لیے دلچسپی کا سامان اور وقت گزاری کا ذریعہ ہے بلکہ یہ ذہن سازی کا بھی مؤثر ذریعہ ہے اور بچے ان سے بہت کچھ سیکھ رہے ہوتے ہیں، یہ سلیبی وصہیونی طاقتوں کی جانب سے تیار کیے گئے وہ ہتھیار ہیں جن سے یہ طاقتیں نئی نسل کا شکار کرتی ہیں، کارٹونوں کے بچوں پر پڑنے والے منفی اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک کالم نگار یوں رقم طراز ہے: ’’کارٹونوں میں بہت کم اچھی اور بے شمار بے ہودہ چیزیں موجودہیں، جو بچوں کی سوچ پر اثر انداز ہورہی ہے، اس کی وجہ سے بچوں میں تشدد پسندی، غیر اسلامی ثقافت،رسم ورواج، اخلاقی اقدار سے دوری اور ٹپوری زبان فروخت پاری ہے، بچوں کے ذہن صاف سلیٹ کی مانند اور بالکل سفید کاغذ کی طرح ہوتے ہیں، آپ ان کے دل ودماغ پر جو چھاپ چھوڑنا چاہیں گے چھوڑ سکتے ہیں، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ایک معمولی سا کارٹون شو بچوں پر کیسے اثر انداز ہوسکتا ہے، معصوم بچوں کو یہ کس طرح متأثر کرسکتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے گھر میں اپنے بچوں کی نفسیات اور الفاظ اور ان کی معصومانہ خواہشات کا جائزہ لے لیں، تو بغیر کسی دلیل کے آپ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی‘‘(عقیدۂ اہل سنت وجماعت پورٹل ۲۵؍ مارچ ۲۰۱۸ء)
کارٹون کا مواد : ’’موجودہ دور کی تقریباً نناوے فیصد کارٹون سیریز سیریل اور فلمیں اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں، چوں کہ ان کو بنانے والے اور ان کے لیے مواد فراہم کرنے والے اکثر دہریت زدہ انسان یا پھر یہود و نصاریٰ ہوتے ہیں، جن کا ہدف بچوں اور نئی نسل کی تربیت نہیں بلکہ مقصد اول پیسہ کمانا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ صرف پروگرام تک ہی محدود نہیں بلکہ آج بازاروں میں ایسی سیریل کے نام سے یا اس کے کرداروں کے نام وشکل (جیسے بال بیر،ٹوم اینڈ جیری، موٹو اور پتلو) میں بنیادی ضرورت کی چیزیں دستیاب ہیں‘‘(حوالہ سابق)
چند کارٹون سیریل کا تعارف : کارٹون کی دنیا میں بہت سے کارٹون سیریلس اور کارٹونی فلمیں عام ہیں، یہ ایک مستقل انڈسٹری ہے جس میں مغربی ملکوں اور یہود ونصاریٰ کی نامور کمپنیاں سرمایہ کاری کرتی ہیں، ویڈیو گیمز کی طرح کارٹون سیریلس کی بھی ایک وسیع دنیا ہے، بیشتر کمپنیاں اس حوالہ سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں، ملینوں ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے، بچوں کے ذہنوں سے کھیلنے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، ذیل میں چند کارٹونوں کا تعارف پیش کیا جاتا ہے:
THE SIMPSONS نامی کارٹون:’ ’دی سمسانس ‘‘ امریکہ میں دکھائی جانے والی کارٹون سیریز کا نام ہے، جسے سب سے لمبے عرصہ سے دکھائی جانے والی سیریز کا ایوارڈ حاصل ہے، جس کی ۳۰ سے زائد سیریز اور ۶۵۰ سے بیشتر ایپیسوڈ ہوچکے ہیں، جسے MATT GROING یعنی میٹ گروئنگ نامی فری میسن شخص چلاتا ہے، اس کی خاص یہ ہے کہ اس کارٹون سیریز میں آئندہ سالوں میں ہونے والی چیزوں کو کئی سال قبل ہی دکھا دیا جاتا ہے، جو یہودی صہیونی سازش کی اہم کڑی اور دیگر لوگوں کو چیلنج ہے، ان کا ہر کام پری پلاننگ سالوں پہلے ہوجاتا ہے، اس کی تاریخ ،افراد ، مقامات سب فکس اور طے ہوتے ہیں، اس سیریل میں دکھائی گئی چند چیزیں یوں ہے:
ووٹر مشین گھوٹالہ: ۲۰۰۸ء میں دکھایا گیا تھاکہ OBAMA کو ڈالے جانے والا ووٹ MECAIN کو پڑرہا تھا، ٹھیک چار سال بعد ۲۰۱۲ء میں ایسا ہی ہوا۔ ۲۰۰۷ء میں اس کارٹون نے ماں بولتی ہے کوئی بھی کال مت کرو، امریکہ ہر کسی کا کال ریکارڈ کرتا ہے۔۲۰۰۳ء میں NSA میں کام کرچکا امریکن سائنٹسٹ ایڈورڈ نے یہ پول کھولا۔
۱۱/۹نائن الیون سوچی سمجھی سازش: اس سیریل میں ۱۹۹۷ ء میں اس کارٹون میں دکھایا گیا اور خود انھوں نے مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے ان کی طرف منسوب کردیا۔۲۰۱۵ء میں امریکہ کا پورا میپ دکھایا گیا جس میں کونسے کونسے علاقے ٹرمپ کو ووٹ دیں گے اور اس کی سیٹ آئے گی بتادیا گیااور ۱۹۱۶ء میں ویسا ہی ہوا۔(شاہراہ علم، مئی، جون، جولائی ۲۰۱۹ء)
ڈورے مون سیریل : یہ ایک انتہائی مقبول کارٹون سیریل ہے، بچے اس کو بڑے شوق سے دیکھتے ہیں، پھر وہی سب کچھ کرنا چاہتے ہیں، جو کارٹون پروگرام میں دکھایا جاتا ہے،اکثر اوقات بچے ماں باپ سے اس بات کی ضدکرتے ہیں کہ وہ ان کو وہی گیجٹ لا کر دیں جو وہ کارٹون کو استعمال کرتے دیکھتے ہیں، اس قسم کے کارٹونوں کودیکھنے سے بچے لاپرواہ شرارتی ہوجاتے ہیں۔
کارٹونز کے اثرات — ایک سروے : بچوں کے اخلاق اور ان کی نفسیات پر کارٹونز کس قدر منفی اثرات ڈالتے ہیں، اس کا اندازہ ایک سروے سے کیا جاسکتا ہے، سروے کا دائرہ ۵۰ والدین تک تھا، سروے میں کئے جانے والے سوالات بچوں کے رویے، ان کی عمر، ٹی وی دیکھنے کے دورانیے، ان کے حالات رد عمل، کارٹون کے دیکھنے کے مطالبے، ٹی بند کئے جانے پر غصہ، والدین کا کارٹون پر اطمینان اور ان کے تجارتی فوائد جیسی باتوں پر مبنی تھے، اس سرے سے حاصل شدہ اعداد وشمار یوں تھے: جوابدہ لوگوں میں سے ۵۰ فیصد کے بچوں کی عمر ۵سے ۹ سال تھی، جب کہ ۳۰ فیصد بچوں کی عمر ۱۰ سے ۲۱ سال تھی، ۸۰ فیصد لوگوں کا جواب یہ تھا کہ ان کے بچے کم از کم دو گھنٹے اور ۱۵ فیصد کا کہنا یہ تھا کہ ان کے بچے ۳ گھنٹے سے زائد ٹی وی دیکھتے ہیں۔ ۹۰ فیصد والدین اپنے بچوں کو پر امن سمجھتے ہیں، ۸۰ فیصد والدین کا خیال یہ ہے کہ ان کے بچے کارٹون دیکھتے وقت اس میں مگن ہوجاتے ہیں۔ ۰۰ ۱ فیصد والدین کا خیال ہے کہ ان کے بچے پر تشدد کارٹون دیکھ کر جارحانہ رویہ اپناتے ہیں۔ ۷۵ فیصد والدین کا خیال ہے کہ ان کے بچے کارٹون کرداروں کے استعمال کردہ چیزوں اور ایسی چیزوں کا مطالبہ کرتے ہیں جن پر ان کرداروں کا لیبل لگا ہو۔۷۰ فیصد والدین کا کہنا ہے کہ بچوں کو کارٹونز سے روکنے پر ان کو شدید غصہ آجاتا ہے۔۱۰۰ فیصد والدین کا خیال ہے کہ ان کے بچوں کو کارٹونوں کے ذریعہ کارپوریٹ مقاصد کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔(شاہراہ علم، مئی، جون، جولائی ۲۰۱۹ء)
کارٹون — ایک سازش:موجودہ دور کے عظیم مفکر باخبر صحافی اور مغربی تہذیب کے بے باک نقاد حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی رحمہ اللہ نے کارٹون کے تعلق سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ نہایت چشم کشا اور بصیرت افروز ہیں، وہ لکھتے ہیں: ذرائع ابلاغ کے بعد دوسری جنگ کی ابتدا ہورہی ہے، اس جنگ کا مقصد کمسن ونوخیز بچوں کو مغربی تعلیم دیکر ان کے ذہنوں میں مغربی خیالات وافکار کی آبیاری کرنا ہے، یہ کام کارٹونی فلموں اور گیمز کے ذریعہ انجام پارہا ہے، لیکن اس حملہ کا دائرہ کار بھی ترقی یافتہ اور خوشحال طبقہ تک محدود ہے، اس حملہ کی قیادت امریکہ کررہا ہے، امریکہ نے اس منصوبہ کی تکمیل کی خاطر اولاً اسلامی ممالک کے نظامِ تعلیم وتربیت میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی، اس نے غیر مسلم اقلیت کے سرکشوں سرپرست عناصر کو ابھارا، انھیں با اثر عہدوں تک پہونچا کر اسلام کے بارے میں اسے بدظن کیا، ان کے ذہنوں میں اسلام کے متعلق طرح طرح کے شکوک وشبہات پیدا کئے اور اسلامی حکومتوں سے ان عناصر پر پابندی عائد کرنے کامطالبہ کیا،جن سے اسے اپنی مخالفت کا اندیشہ تھا، جو سابقہ اقدامات اور مکاریوں سے زیادہ خطرناک ہے۔(نظامِ تعلیم وتربیت از مولانا واضح رشید ندوی)
کارٹوں کے اخلاقی، سماجی اور طبی نقصانات :اکثر والدین کارٹونوں کو سامانِ تفریح خیال کرکے ان کے منفی ا ثرات کو قابل اعتناء نہیں سمجھتے، ان کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ کارٹون میں مشغولی کے سبب گھر بچوں کے شور وشغف سے محفوظ رہتا ہے، والدین کے پاس ان کی مصروفیات کی وجہ سے بچوں کے لیے فارغ وقت نہیں ہوتا، حالانکہ کارٹوں بچوں کے انتہائی تباہ کن ہے، ان سے جہاں بچوں کی صحت برباد ہوتی ہے وہیں ان کے اخلاق اور رویہ پر نہایت منفی اثرات پڑتے ہیں، کارٹون بچوں کے دین و عقیدہ پر کاری ضرب لگاتے ہیں، کارٹون سے بچوں میں تشدد اور جارحیت کی آبیاری ہوتی ہے، کارٹون بچوں کو بے حیاء بنا کر انھیں عریانیت کے دلدل میں پھینک دیتے ہیں، بچے ان کے اس قدر عادی ہوجاتے ہیںکہ اس لت کی وجہ سے ان کی زندگی کے قیمتی لمحات ضائع ہوتے ہیں، مگر انھیں احساس نہیں ہوتا، کارٹون بچوں کو پٹوری زبان کا عادی بناتے ہیں، بڑوں کا ادب اور بزرگوں کا احترام ختم ہوجاتا ہے، یہ اور اس جیسے بے شمار نقصانات ہیں جو نسلِ نو کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں، آنے والی سطور میں ان نقصانات کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا جاتا ہے۔
عقائد کا بگاڑ : کارٹونوں کا نسلِ نو پر سب سے برااثر عقائد کی بگاڑ کی شکل میں ہورہا ہے،دین میں عقائد بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، کسی بھی مومن کی اخروی نجات عقائد صحیحہ پر موقوف ہوتی ہے، اعمال میں پایاجانے والا جھول خدا کے یہاں قابل معافی ہے، لیکن عقیدہ کی کمزوری یا غلط عقائد کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں، مکی زندگی کے ۱۳سالوں میں صرف عقائد پر محنت کی گئی، اور احکام کا نزول مدنی زندگی سے شروع ہوا، عقائد مسلمانوں کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں، دشمن چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی نسل نو کے عقائد کو کمزور کردیا جائے، بالخصوص عقیدۂ توحید میں دراڑ پیدا کی جائے۔
کارٹوں کے ذریعہ عقائد پر کیسے کاری ضرب لگائی جاتی ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک کالم نگار نفیس دانش رقم طراز ہیں: کارٹونز کے ذریعہ بچوں کے عقائد پر حملے ہورہے ہیں، کیوں کہ اکثر کارٹونوں میںباطل مذہب کی ترجمانی ہوتی ہے، مثلاً کسی میں جادوگروں کی جادوگری اور اس کے اثر انگیزی کو دکھلایا جاتا ہے، کسی میں یہ دکھلایا جاتا ہے کہ کسی بت کی پوجا کرنے سے مشکل دور ہوگئی، کسی کارٹون میں درخت وغیرہ کو آفات وحوادث حفاظت کرنے والے کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے، کسی میں صلیب اور بت وغیرہ کے ذریعہ قلبی طمانینت حاصل ہوتے ہوئے دکھلایا جاتا ہے، کسی میں گرجاگھر اور بت کدوں میں کیے جانے والے شرکیہ اعمال اور پس پردہ اس کے فائد بھی دکھلائے جاتے ہیں، بچوں میں چوں کہ صفت ِانفعالیت غالب ہوتی ہے؛ اس لیے بہت جلد وہ اس کا اثر قبول کرلیتے ہیںاور اسلامی تعلیمات کے متعلق جلد بدگمان ہوجاتے ہیں۔(سہ روزہ دعوت ،نئی دہلی)
عقیدۂ تثلیث کی نمائش: بیشتر کارٹونسٹ یہود ونصاریٰ ہیں، اس لیے وہ وقتا فوقتاً کارٹونوں میں عقیدۂ تثلیث کے مناظر پیش کرتے ہیں اور اکثر ہندی کارٹونوں میں ادا کاروں کو بتوں سے مدد مانتے اور غیر اللہ کے آگے سر جھگائے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
(جاری ہے)
۰۰۰٭٭٭۰۰۰