[]
حیدرآباد: عوام کی جان ومال کی حفاظت، انسانی حقوق کا تحفظ، قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانے کے ساتھ نظم وضبط کی صورتحال بنائے رکھنا پولیس کے فرائض میں شامل ہیں مگر کہا جاتا ہے کہ آج پولیس بالخصوص شہر کے مختلف مقامات پر عوام کے ویڈیوز بناکر انہیں مبینہ طورپر ہراساں کررہی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
اس کام میں چند خود ساختہ صحافیوں کا بھی پولیس کو تعاون حاصل ہے۔ ذرائع کے بموجب کارڈن اینڈ سرچ کے نام پر کسی بھی مکان میں زبردستی داخل ہونے کی شکایت بھی عام ہے۔ لاٹھی بردار پولیس اہلکار، دہشت کا ماحول پیدا کررہے ہیں، نوجوانوں کو نشانہ بنانے کی بھی شکایت ہے۔
اس دوران پولیس والوں کے درشست لہجہ سے بھی عوام کو اعتراض ہے۔ بتایاجاتا ہے کہ نوجوانوں کو ڈرا دھمکاکر ان کے ویڈیوز خود پولیس بنار ہی ہیں، اس طرح یہ عمل شہریوں کی عزت کو داغدار کرنے کے مماثل ہے۔ کسی کیس میں مطلوب ملزم کی گرفتاری کے بعد اس کے ساتھ پولیس کے سلوک سے ہر کوئی واقف ہے۔
پولیس اسٹیشن کے ذمہ دار کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ گرفتاری کے 24 گھنٹے سے زیادہ ملزم کو پولیس حراست میں رکھے مگر بیشتر پولیس اسٹیشنوں کے انچارج اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں اس کے باوجود ان قانون شکن عہدیداروں کے خلاف نہ تو باز پرس کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ قانون کے نام پر خود پولیس غیر قانونی کام کرتی ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے پولیس، عوام کے ساتھ جو رویہ اختیار کررہی ہے اس کو کسی بھی حالت میں مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ راتوں میں بلا وجہ گھومنے والے نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کرنا اچھی بات ہے مگر پولیس، نوجوانوں کو 11بجے شب کے بعد گھروں سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت دے رہی ہے۔
11 بجے کے بعد کوئی نوجوان غیر ضروری سڑکوں پر دکھائی دیتا ہے تو پولیس اس کی ویڈیو بنارہی ہیں جو انسانی حقوق کے مغائر ہے۔ اگر کوئی اس سلسلہ میں انسانی حقوق کمیشن سے اس بارے میں شکایت کرے تو پھر پولیس کی نیک نامی متاثر ہو سکتی ہے۔
سنتوش نگر کے انسپکٹر شیو چندر یہ کہتے ہوئے غنڈہ عناصر (روڈی شیٹرس) کو دھمکارہے ہیں کہ متعلقہ پی ایس کے حدود میں رہنا ہو تو وہ کو پولیس کونسلنگ میں شرکت کرنا ضروری رہے گا۔ ورنہ وہ گھروں کو خالی کرکے چلے جائیں؟۔ پولیس عہدیداروں کا رویہ عوام کے تئیں بہتر رہنا چاہئے۔
عوام سے قریب ہونا پولیس کا فریضہ ہے مگر چند عہدیداروں کے سخت گیر اور ترش رویہ سے عوام اور پولیس کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ ایک طرف فرینڈلی پولیسنگ کی بات کی جارہی ہے تو دوسری طرف اس کے برعکس عمل جاری ہے۔ گنجان آبادی والے علاقوں کے بجائے نکسلائٹس علاقوں اور دہشت گردوں کے مشتبہ مقامات پر کارڈن اینڈ سرچ آپریشن کیا جانا چاہئے۔