[]
لندن: کانگریس قائد راہول گاندھی نے پیرس میں طلبہ اور ماہرین تعلیم سے بات چیت کے دوران بی جے پی کو نشانہ تنقید بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں برسرِ اقتدارجماعت کسی بھی قیمت پر اقتدارحاصل کرنے پرتلی ہوئی ہے اور اس کی سرگرمیوں میں ہندو نام کی کوئی شئے نہیں ہے۔
فرانس کی ممتاز سوشل سائنسیس یونیورسٹی سائنسیس پی او(پیرس) میں ہفتہ کے دن انٹرایکشن میں 53 سالہ قائد اپوزیشن نے مختلف موضوعات جیسے بھارت جوڑو یاترا‘ جمہوری اداروں کے تحفظ کیلئے اپوزیشن اتحاد کی لڑائی‘ بدلتا عالمی نظام اور دیگر موضوعات پر کھل کربات کی۔
انہوں نے زوردے کرکہا کہ اپوزیشن ملک کی روح کیلئے لڑنے کی پابند ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک موجودہ اتھل پتھل سے باہر نکل آئے گا۔ کانگریس قائد نے کہا کہ میں نے گیتا پڑھی ہے‘ میں نے کئی اوپنیشدپڑھے ہیں‘ میں نے کئی ہندو کتابیں پڑھی ہیں۔
بی جے پی جو کررہی ہے اس میں ہندونام کی کوئی شئے نہیں ہے۔ ان سے ملک میں بڑھتی ہندوقوم پرستی کے بارے میں پوچھاگیاتھا۔ راہول گاندھی نے کہا کہ میں نے کہیں بھی کسی بھی ہندوکتاب میں نہیں پڑھا اور نہ کسی ہندو سے سیکھا کہ آپ اپنے سے کمزور لوگوں کو دہشت زدہ کریں‘ نقصان پہنچائیں۔ ہندو قوم پرست کا لفظ غلط لفظ ہے۔
ہندو قوم پرست نام کی کوئی شئے نہیں۔ ان لوگوں کو ہندو دھرم سے کوئی لینادینا نہیں۔ وہ لوگ بہرقیمت اقتدارحاصل کرنے پر تلے ہیں اور حصول اقتدار کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ وہ لوگ صرف چند لوگوں کا غلبہ چاہتے ہیں اور یہی کچھ کررہے ہیں۔
کانگریس کے سابق صدر نے زوردے کرکہا کہ 60 فیصد ہندوستان نے اپوزیشن جماعتوں کو ووٹ دیا جبکہ برسرِاقتدارجماعت کو صرف40 فیصد ووٹ ملے۔ یہ آئیڈیا غلط ہے کہ اکثریتی فرقہ نے بی جے پی کوووٹ دیا۔
اصل میں اکثریتی فرقہ ہمیں ان سے زیادہ ووٹ دیتا ہے۔ آئی اے این ایس کے بموجب انڈیا کے بجائے بھارت کے استعمال پر اپوزیشن اور برسرِ اقتدار بی جے پی کے بیچ تنازعہ کے درمیان کانگریس قائد راہول گاندھی نے کہا ہے کہ دستور میں انڈیا کی تشریح انڈیا کے طور پر کی گئی ہے جوکہ بھارت‘ ریاستوں کی یونین ہے۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ اہم یہ ہے کہ کسی کی بھی آواز نہ کچلی جائے۔ ہمارے دستور میں انڈیا ریاستوں کی یونین ہے۔ ریاستیں‘ یکجاہوکر انڈیا یا بھارت بنتی ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان ریاستوں کے بشمول سبھی لوگوں کی آواز واضح طور پرسنی جائے۔ کسی کی بھی آواز سلب نہ کی جائے۔
راہول گاندھی پیرس کی سائنسیس پو یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ سے حالیہ بات چیت کے دوران ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔ بی جے پی طنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اتحاد کو انڈیا کا نام دئیے جانے سے بی جے پی‘ بوکھلا گئی ہے۔
اب اس نے ملک کا نام بدل دینے کا فیصلہ کرلیا۔ لوگ عجیب طرح کام کرتے ہیں۔ کیرالا کے حلقہ وائناڈ سے کانگریس رکن لوک سبھا راہول گاندھی نے کہا کہ میرا تجربہ ہے کہ چاہے لوگ غریب یا امیر انہیں احساس ہے کہ ہندوستان کو کیاکرناچاہئیے۔
میرے لئے پہلا قدم لوگوں کی آواز کا تحفظ ہے۔ یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ اداروں کا تحفظ ہو‘ ہم جب جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو دراصل عوام کی آواز کی بات کررہے ہوتے ہیں۔
عوام کی آوازکو موثرطور پر سننا اور انہیں اس کا اظہارکرنے دینا کسی بھی کامیابی کیلئے اہم ہے۔ کانگریس قائد نے کہا کہ مہاتماگاندھی نے کہاتھا کہ زیادہ اہم آواز قطار میں آخر میں کھڑے شخص کی ہوتی ہے۔ آپ جب ہندوستان جیسے بڑے ملک سے ڈیل کررہے ہوتے ہیں تو آپ کو کئی مختلف ممالک سے تعلقات رکھنے ہوتے ہیں۔
ملک کی حیثیت سے ہم اپنے مفاد میں کام کرتے ہیں۔ راہول گاندھی سے پوچھاگیاتھا کہ بین الاقوامی تعلقات میں ہندوستان کس کی طرف ہے؟۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے جیسے بڑے ملک کیلئے اس کا جواب دینا بڑا دشوار ہے‘ لیکن ہمارا خیال ہے کہ سبھی کی آواز اور جمہوریت اہم ہے۔
چین پرتنقید کرتے ہوئے راہول گاندھی نے کہاکہ آج زیادہ تر پروڈکشن‘ مینوفیکچرنگ اور ویلیوایڈیشن چین میں ہورہا ہے۔ یہ عالمی مسئلہ ہے۔ یہ ہندوستان کا یوروپ کا امریکہ کا مسئلہ ہے۔
ہمیں جمہوری طریقہ سے پروڈکشن کے بارے میں سوچناہوگا۔ ہمیں اپنے عوام کو سیاسی اور معاشی آزادی دیتے ہوئے چین سے مسابقت کرنی ہوگی۔ یہ ایک چیالینج ہے۔ میں اسے چین سے ٹکراؤ کے طورپرنہیں دیکھتا۔
چین نے کام کرنے کا ایک طریقہ دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ میرے خیال میں ہندوستان امریکہ اور یوروپ کو متبادل نظام‘ متبادل طریقہ ٹیبل پررکھنا ہوگا۔ راہول گاندھی اتوار کے دن نیدرلینڈ پہنچ گئے جہاں لیڈن یونیورسٹی میں ان کا انٹرایکٹیوسیشن ہوگا۔