دہلی کی نومنتخب ریکھا گپتا حکومت نے منگل (1 اپریل) کو فضائی آلودگی کے حوالے سے سی اے جی کی رپورٹ اسمبلی میں پیش کی۔ سی اے جی کی رپورٹ میں کئی طرح کی خامیاں درج کی گئی ہیں۔


دہلی اسمبلی کی فائل تصویر / آئی اے این ایس
دہلی کی نومنتخب ریکھا گپتا حکومت نے منگل (1 اپریل) کو فضائی آلودگی کے حوالے سے سی اے جی کی رپورٹ اسمبلی میں پیش کی۔ سی اے جی کی رپورٹ میں کئی طرح کی خامیاں درج کی گئی ہیں۔ رپورٹ کے کچھ اہم پوائنٹس سامنے آئے ہیں جو حیران کر دینے والے ہیں۔ رپوررٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کنٹینیوئس ایمبیئنٹ ایئر کوالٹی مانیٹرنگ اسٹیشن (سی اے اے کیو ایم ایس) کی تعداد سی پی سی بی کے معیارات کے مطابق نہیں تھی جس کی وجہ سے اے کیو آئی ڈیٹا ناقابل اعتبار رہا۔
ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سسٹم کے حوالے سے جاری رپورٹ میں آگے بتایا گیا ہے کہ مناسب ہوا کے معیار کی نگرانی کے لیے ضروری آلودگی کا ارتکاز ڈیٹا دستیاب نہیں تھا، لیڈ لیول کی پیمائش نہیں کی گئی۔ آلودگی کے ذرائع پر حقیقی وقت کے اعداد و شمار دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ضروری مطالعے نہیں کیے گئے۔ گاڑیوں سے ہونے والے اخراج کا کوئی اندازہ نہیں لگایا گیا، جس کی وجہ سے ماخذ سے متعلق پالیسیاں بنانے میں مشکل پیش آئی۔ 24 مانیٹرنگ اسٹیشنوں میں سے 10 میں بینزین کی سطح قابل اجازت حد سے زیادہ پایا گیا، لیکن پیٹرول پمپوں سے ہونے والے اخراج کی مؤثر طریقے سے نگرانی نہیں کی گئی۔
رپورٹ میں فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے بنائے گئے نظام میں بھی پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ بسوں کی کمی (6750 دستیاب بمقابلہ 9000 درکار ہیں) تھی۔ بس نظام میں آپریشنل خامیاں، جیسے بسوں کا آف روڈ رہنا اور غیر معقول روٹ پلاننگ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 2011 کے بعد سے ’گرامین-سیوا‘ گاڑیوں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے، جب کہ آبادی میں اضافہ ہوتا رہا، پرانی گاڑیاں آلودگی کے اضافے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ساتھ ہی متبادل پبلک ٹرانسپورٹ (مونوریل، لائٹ ریل ٹرانزٹ، ٹرالی بس) کے لیے الاٹ بجٹ کا 7 سال تک استعمال نہیں کیا گیا۔
روک تھام اور نفاذ کی حکمت عملیوں پر بھی سی اے جی کی رپورٹ میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ بسوں کا لازمی طور پر ماہ میں 2 بار اخراج ٹیسٹ نہیں کیا گیا۔ آلودگی انڈر کنٹرول سرٹیفکیٹس (پی یو سی سی) جاری کرنے میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں، جس میں زیادہ اخراج والی گاڑیاں بھی پاس کر دی گئیں۔ آلودگی کی جانچ کرنے والے مراکز (پی سی سی) کا کوئی معائنہ یا تھرڈ-پارٹی آڈٹ نہیں کیا گیا۔ جدید ٹیکنالوجی، جیسے کہ ریموٹ سینسنگ ڈیوائس کو اپنانے میں تاخیر کی گئی۔
اس کے علاوہ زیادہ تر گاڑیوں کے فٹنس ٹیسٹ دستی طور پر کیے گئے، جن میں مناسب اخراج کی جانچ کی کمی تھی۔ 19-2018 میں 64 فیصد گاڑیاں جو فٹنس ٹیسٹ کے لیے مقرر کیے گئے تھے، ٹیسٹ کے لیے نہیں آئیں۔ خودکار گاڑیوں کے معائنہ کرنے والے یونٹوں کا کم سے کم استعمال، مناسب جانچ کے بغیر فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بی ایس-3 اور بی ایس4 گاڑیوں کی غیر مجاز رجسٹریشن بھی شامل ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔