[]
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اکثریتی طبقے کے اخلاقی ضوابط کو اقلیتوں کے پرسنل لاء، مذہبی آزادی اور حقوق پر فوقیت نہیں دی جانی چاہیے۔
بھارت میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ‘آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ’ نے بھارتی لاء کمیشن کے نام اپنے مکتوب میں یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کا اعادہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ”اکثریتی طبقے کی اخلاقیات” سے اقلیتی برادریوں کی مذہبی آزادی اور ان کے حقوق کو زیر نہیں کیا جانا چاہیے۔
ادارے نے 100 صفحات پر مشتمل ایک خط لاء کمیشن کو بھیجا ہے، جس میں کہا گیا، ”کسی کوڈ کے نام پر، جو اب بھی ایک معمّہ ہے، پرسنل لاء، مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے حقوق پر، اکثریت کی اخلاقیات کو بالا دستی نہیں حاصل ہونی چاہیے۔”
بھارتی لاء کمیشن نے 14 جون کو یونیفارم سول کوڈ کے مسئلے پر عوام سے آراء طلب کی تھیں، جس کے جواب میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے اتنا طویل خط اسے لکھا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ اس کے نفاذ کے بارے غور و فکر کر رہا ہے۔
اسلامی شریعت بھارتی مسلمانوں کی شناخت ہے
بورڈ نے اس سلسلے میں ایک میٹنگ کی، جس میں اس مسئلے پر غور و فکر کیا گیا اور پھر اپنی تجاویز لا کمیشن کو بھیجیں۔ اس مکتوب میں یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو لوگ بعض سیاسی جماعتوں کی ایما پر یونیفارم سول کوڈ کے حق میں طرح طرح کے جواز پیش کر رہے ہیں، وہ کس طرح بھارتی آئین سے متصادم ہے۔
لاء کمیشن کو لکھے گئے جواب میں دلیل دی گئی کہ بھارت میں مسلمانوں کا پرسنل لاء ”براہ راست قرآن اور سنت سے ماخوذ شرعی قوانین پر مبنی ہے اور یہ پہلو ان کی شناخت سے جڑا ہوا ہے۔” مکتوب میں کہا گیا، ”بھارتی مسلمان اپنی اس شناخت کو کھونے کے لیے راضی نہیں ہوں گے، جس کی ہمارے ملک کے آئینی فریم ورک میں گنجائش بھی ہے۔ اگر ہم اقلیتوں اور قبائلی برادریوں کو ان کے اپنے ذاتی قوانین کے تحت زندگی بسر کرنے کی اجازت دیں، تو اس سے اپنے ملک کے تنوع کو برقرار رکھنے کے ساتھ ہی، قومی سالمیت، تحفظ، سلامتی نیز بھائی چارے کو بھی بہترین تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔”
بھارت میں سب کے لیے یکساں قوانین
بھارتی آئین میں یونیفارم سول کوڈ کے حوالے سے صرف ایک جملہ درج ہے۔ آئین کی دفعہ 44 میں کہا گیا ہے کہ ”مملکت یہ کوشش کرے گی کہ ملک کے پورے علاقے میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ کی ضمانت ہو۔”
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہندو ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے اپنے انتخابی منشور میں جو چار اہم وعدے کیے تھے، یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ اس نے اقتدار میں آنے کے بعد ان میں سے تین یعنی جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے، اجودھیا میں رام مندر تعمیر کرنے اور شہریت ترمیمی قانون کا وعدہ پورا کر دیا۔
اس نے تین طلاق کو بھی غیر قانونی اور قابل سزا جرم قرار دے دیا ہے۔ اب ملک بھر میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا آخری اہم وعدہ پورا کرنا رہ گیا ہے اور اس نے اس کے نفاذ کا نیا شوشہ چھیڑ دیا ہے۔ا س حوالے سے وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان کے بعد بحث اور بھی تیز ہوگئی ہے۔ گوکہ اس کے نفاذ سے بہت سے ہندو اور دیگر فرقے اور بالخصوص قبائلی بھی متاثر ہوں گے لیکن بھارتی مسلمان اسے ایک نئی مصیبت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
آزاد بھارت میں سن 1955میں قائم لاء کمیشن اب تک 277 تجاویز پیش کر چکا ہے لیکن ان میں سے گنتی کے چند ایک ہی حکومت نے منظور کیے۔ تاہم لا کمیشن کی موجودہ حیثیت کو دیکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ وہ بی جے پی کی پسند کے مطابق مشورے دے گا اور حکومت اسے پارلیمان میں پیش کر دے گی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور دیگر حالات کے مدنظر مودی حکومت خود بھی یونیفارم سول کوڈ کو فوری طورپر نافذ کرنا نہیں چاہے گی اور اس نے مسئلے کا اندازہ لگانے کے لیے پانی میں پتھر پھینکا ہے۔ اس درمیان ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس سے وابستہ بعض تنظیموں نے بھی یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی مخالفت کی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔