یمن، جبر اور جارحیت کے خلاف مزاحمت کی آہنی دیوار

مہر نیوز ایجنسی کے مطابق، یمن کے شہروں اور بنیادی ڈھانچے پر حالیہ امریکی فضائی حملے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ صنعا نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ فسلطینیوں کی حمایت سے ہرگز دستبردار نہیں ہوگا۔

 امریکہ اور نیٹو فلسطینی عوام کے خلاف جرائم میں صیہونی رژیم کی حمایت کرتے ہیں اور ان جرائم کے خلاف آواز اٹھانے والی کسی بھی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
 یمن، غزہ کے عوام کے قتل عام کے دوران ان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا رہا اور عرب اور اسلامی کاز کے ساتھ اپنے عزم کا اعادہ کر چکا ہے۔

یہ موقف یمن عوام کے جذبے کی عکاسی کرتا ہے جو بیرونی دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہیں اور اپنی خودمختاری اور آزادی کے تحفظ پر اصرار کرتے ہیں۔ 

یمن پر حالیہ امریکی فضائی حملے سعودی قیادت میں یمن مخالف اتحاد کی حمایت میں کیے گئے ہیں۔ تاہم اس عرصے میں صنعاء میں یمنی  فوج اپنی دفاعی اور سیکورٹی صلاحیتوں کو نمایاں طور پر مضبوط کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

 اس مضبوط دفاعی طاقت کی وجہ سے امریکی اتحاد کی جانب سے افراد اور حساس تنصیبات کو درست نشانہ بنانے کے تناسب میں کمی واقع ہوئی ہے۔

 حالیہ برسوں میں یمن کی فوجی صلاحیتوں میں بھی نمایاں ترقی ہوئی ہے جس کی وجہ سے یمن مخالف اتحاد کے لیے اپنے مقاصد حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ 

 جی ہاں، یمنی عوام نے غزہ کی حمایت کی جنگ میں فعال اور مخصوص انداز میں حصہ لینے سے پہلے سعودی قیادت والے جارح اتحاد کو شکست دینے کی اپنی صلاحیت ثابت کر دی ہے۔

 امریکہ کی زیر قیادت فوجی اتحاد کے خلاف فلسطین کا دفاع یمن کے لیے کوئی مشکل چیلنج نہیں ہے جیسا کہ حالیہ واقعات نے ظاہر کیا ہے۔

مزید برآں صنعا سے یہ پیغام واضح ہے کہ غزہ میں امن بحیرہ احمر میں امن کی کنجی ہے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو فلسطین کے لیے یمن کی حمایت جاری رہے گی۔

 یہ بات ایک بار پھر ثابت ہو گئی ہے کہ امریکہ اور صیہونی حکومت خطے اور بحیرہ احمر میں عدم تحفظ کی اصل وجہ ہیں۔ 

اس وقت ٹرمپ انتظامیہ یمنی عوام کو زیر کرنے کے لئے جارحیت کی مرتکب ہو رہی ہے، جب کہ خطے کی کچھ ریاستیں حالیہ برسوں میں یمن مخالف اتحاد کی حمایت میں اپنی ناکامی کی تلافی کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ 

یہ حکومتیں جو اپنی پچھلی ناکامیوں کو نہیں بھولی ہیں، یمنی عوام پر مالی اور لاجسٹک امداد اور امریکہ اور صیہونی حکومت سے ملنے والی حمایت سے فتح کا خواب دیکھنے لگی ہیں۔ 

 پراکسی کے بجائے اتحادی

 یمن کو عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان جو گہرے تاریخی اور ثقافتی رشتوں نے باندھ رکھا ہے وہ واضح طور پر عیاں ہیں۔ یمن کا فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ ایک آزادانہ فیصلہ تھا جو یمنی عوام کی مرضی کی عکاسی کرتا ہے اور کسی بھی بیرونی تسلط یا دباؤ کو مسترد کرتا ہے جو اس کی خودمختاری یا سیاسی اختیارات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ ایران کے پاس یمن میں کوئی پراکسی نہیں ہے جیسا کہ مغربی ممالک دعویٰ کرتے ہیں، بلکہ ایران اور یمنی ایسے اتحادی ہیں جو مشترکہ چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ یمن کا فیصلہ ایک آزادانہ فیصلہ ہے جو اس کی قیادت نے عوام کی حمایت سے کیا ہے اور یہی اس کی آزادی کی تصدیق کرتا ہے۔ 

یمن اور ایران کے تعلقات موجودہ واقعات سے مزید مضبوط ہوگئے ہیں، جہاں کچھ علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں انہیں اس طرح پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جو ان کے سیاسی ایجنڈوں کو پورا کرتی ہے۔ لیکن تاریخ ثابت کرتی ہے کہ یمن ہمیشہ سے اثر و رسوخ رکھنے والی بیرونی قوتوں کا نشانہ رہا ہے جو آزاد ممالک پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم، یمنی جانتے ہیں کہ  تسلط پسند اور جارح طاقتوں کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے۔

یمن مشرق وسطی میں امریکہ اور اسرائیل کی لے پالک عرب ریاستوں اور بزدل حکمرانوں کے برعکس مزاحمت کی آہنی دیوار بن کر فلسطینیوں کی حمایت میں جی جان سے لڑ رہا ہے۔ اس تاریخی موقف نے یمن کو عالمی منظرنامے میں اہم حیثیت دلائی ہے جب کہ امریکی کٹھ پتلی عرب ممالک کو رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *