بہار: پورنیہ کے ایک گاؤں میں ’کالا سایہ‘ کی دہشت، کوئی پُرسان حال نہیں، بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور

گھریلو خاتون رانی داس کے مطابق 2 منٹ بھی کھانا کھلا چھوڑ دیا جائے تو اس پر سیاہ خاک کی سطح جم جاتی ہے۔ گھر میں 10 بار جھاڑو لگانا ہوتا ہے اور کپڑے دھو کر سکھانے پر بھی سیاہی مائل سطح جم جاتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div><div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

بہار کے پورنیہ میں ایک ایسا گاؤں ہے جہاں لوگوں کے سروں پر 24 گھنٹے ’کالا سایہ‘ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اس کالے سائے کا خوف اتنا ہے کہ پورا گاؤں ہجرت کرنے کو مجبور ہے۔ یہ ’کالا سایہ‘ کوئی بھوت پریت یا جادو ٹونا والا نہیں ہے، بلکہ آسمان میں موجود سیاہی کی ایک سطح ہے، جس نے لوگوں کو خوف و دہشت میں ڈال رکھا ہے۔ ضلع کے مرنگا تھانہ علاقے میں 3000 سے زائد آبادی والے اس گُڑ ملکی گاؤں کی اصل پریشانی یہاں کھولا گیا موریہ ایگرو نامی رائس مل ہے۔ اس رائس مل کی وجہ سے مسلسل دھول اور دھواں ہوا میں اڑتا رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے آسمان میں ہمیشہ کالے دھوئیں کی سطح جمی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ فیکٹری سے نکلنے والے آلودہ پانی کی وجہ سے آس پاس کی زمین بھی بنجر ہو رہی ہے۔

 پورنیہ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر سبھاش کمار کہتے ہیں کہ فیکٹری سے نکلنے والے زہریلی مادے کی وجہ سے کینسر کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہی نہیں آلودہ پانی کی وجہ سے علاقے میں مکھی اور مچھر کے ذریعہ پھیلنے والی ٹائیفائیڈ، قے، ڈائریا اور جلد سے متعلق بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ فیکٹری کے دھوئیں کے زد میں آنے سے لوگ پہلے ہی سانس کی بیماری کی گرفت میں آتے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب پورنیہ کے میونسپل کمشنر کمار منگلم نے بتایا کہ انہیں تو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ کارپوریٹ ایریا میں اس طرح کی کوئی فیکٹری چل رہی ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ اب یہ معاملہ ان کے علم میں آیا ہے تو اس کی تحقیقات کرائی جائے گی۔

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ فیکٹری سے نکلنے والی راکھ گھروں کے اندر بیڈ روم تک پہنچ گئی ہے۔ اس مسئلہ کی وجہ سے گاؤں والوں کی آئے دن فیکٹری چلانے والے کے ساتھ تنازعہ ہوتے رہتے ہیں۔ واضح ہو کہ سال 1971 کے ہندوستان-پاکستان جنگ کے بعد ہندوستانی حکومت نے بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو پورنیہ کے گُڑ ملکی میں آباد کیا تھا۔ اس وقت ان کی تعداد کافی کم تھی، لیکن 50 سالوں میں ان کی آبادی تقریباً دوگنی ہو گئی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں آنے کے بعد انہیں اب تک تو کوئی دقت نہیں ہوئی، لیکن اب اس فیکٹری کی وجہ سے ان کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ گُڑ ملکی گاؤں میں رہنے والے سنجے کمار داس کا کہنا ہے کہ فیکٹری چلانے والے نے گاؤں میں اسکول کھولنے کے لیے زمین خریدا تھا، لیکن پہلے یہاں مکئی یونٹ بنایا اور اب اسے رائس مل میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس فیکٹری میں دن رات کام ہوتا ہے، جس کی وجہ دھول اور دھواں یہاں کے فضا میں چھایہ رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے یہاں رہنے والوں کی آنکھ، جلد اور پھیپھڑوں کے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گھریلو خاتون رانی داس کے مطابق 2 منٹ بھی کھانا کھلا چھوڑ دیا جائے تو اس پر راکھ کی پرت جم جاتی ہے۔ گھر میں 10 بار جھاڑو لگانا ہوتا ہے اور کپڑے دھو کر سکھانے پر بھی کالی راکھ جم جاتی ہے۔ اس مسئلہ کو لے کر گاؤں والوں نے پورنیہ کے ضلع مجسٹریٹ کو اجتماعی شکایت کی ہے۔


[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *