مہر خبررساں ایجنسی، دین و عقیدہ ڈیسک: اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے۔ اللہ تعالی انسانوں کو اعلی اور بافضیلت مقام تک پہنچانا چاہتا ہے جس کے لئے ہر وہ چیز عطا کی ہے جو فضیلت کے اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔ قرآن کریم میں اس حوالے سے رہنما اصول بیان کیے گئے ہیں۔
قرآن کریم دین کی تفہیم کا سب سے پہلا اور بنیادی ذریعہ ہے، اس لیے اس کی تفسیر میں صرف الفاظ کے معانی پر اکتفا نہیں کیا جاتا لہذا ان کو سیکھنے اور سمجھنے کے لئے تفسیر اور توضیح کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کی تفسیر اور اس کو سمجھنے کی کوشش نبی اکرم (ص) کے زمانے سے آج تک جاری ہے۔ قرآن کی ابدیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہر دور میں اس کی تشریح اور وضاحت جاری رہے۔
قرآن مجید کو انسانوں کے لئے ہدایت قرار دیا گیا ہے: (ہُدیً لِلنَّاسِ) “یہ انسانوں کے لیے ہدایت ہے”
“زندگی قرآنی آیات کی روشنی میں” کے سلسلہ تحریر کا مقصد قارئین کو آیات قرآنی کے معانی، مفاہیم اور پیغامات سے آگاہ کرنا ہے۔
الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیهَا اسْمُ اللَّهِ کَثِیرًا ۗ وَلَیَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ یَنْصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ(حج/40)
وہ لوگ جو ناحق اپنے گھروں سے نکال دیے گئے صرف اس (جرم) پر کہ انہوں نے کہا : ہمارا رب اللہ ہے اور اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض دوسرے لوگوں کے ذریعے دور نہ کرتا رہتا تو ڈھا دیے جاتے ساری خانقاہیں گرجے کنیسے اور مسجدیں جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور اللہ لازماً اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرے گا یقیناً اللہ طاقتور ہے زبردست ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے نہ روکتا تو خانقاہیں، گرجا گھر، کنیسے اور مساجد ویران کردی جاتیں، جہاں اللہ کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے۔
اہم نکات
صوامع صومعہ کی جمع ہے اور بیابانوں اور غاروں میں واقع راہبوں کی عبادت گاہوں کو کہا جاتا ہے۔ بیع بیعہ کی جمع اور عیسائیوں کی عبادتگاہ کو کہتے ہیں۔ صلوات صلاۃ کی جمع اور یہودیوں کی عبادتگاہ کو کہتے ہیں۔ مساجد کو خراب کرنے کا مطلب اتحاد کو پارہ کرنا، امام کے ساتھ رابطہ ختم کرنا، غرباء کو فراموش کرنا، ذکر خدا سے غفلت اور زمانے کے حالات سے لاعلم رہنا ہے۔ پس دشمن اگر ان کاموں میں کامیاب ہونا چاہیں تو عبادت گاہوں کو خراب کرتے ہیں۔
پیغام
1. جب ظالم کسی قوم کو ان کے گھروں سے نکال دیتا ہے، تو یہ ان کی مظلومیت کا سب سے بڑا ثبوت ہوتا ہے۔ ظُلِمُوا … الَّذِینَ أُخْرِجُوا
2. وطن سے بےدخل کرنا بہت بڑی ناانصافی ہے، کیونکہ اپنے وطن سے محبت ہر انسان کا فطری حق ہے۔ أُخْرِجُوا مِنْ دِیارِهِمْ
3. زمین میں فساد پھیلانے والوں کی جلاوطنی جائز ہوسکتی ہے، لیکن مؤمنین کو بلاوجہ بےدخل کرنا سراسر ظلم ہے۔ بِغَیْرِ حَقٍّ
4۔ سچے ایمان والوں کو ہمیشہ آزمائشوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ أُخْرِجُوا … إِلَّا أَنْ یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ
5. اللہ تعالی بعض لوگوں کے ذریعے دوسروں کو روکتا ہے، اور اس میں اہل ایمان بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ
6. عبادت گاہوں اور مساجد کی بقا کے لیے کبھی خون دینا پڑتا ہے، کیونکہ یہی وہ مقامات ہیں جہاں اللہ کی یاد کو زندہ رکھا جاتا ہے۔ دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ …
7. مساجد کا تحفظ ہر ممکن طریقے سے ضروری ہے۔ خواہ جنگ کے ذریعے، قلم و بیان سے، یا فکری اور تعلیمی کوششوں کے ذریعے، مساجد اور دینی مراکز کا دفاع کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ دَفْعُ اللَّهِ…
8. دشمن کی سب سے بڑی سازش، دینی مراکز کی تباہی ہے۔ اللہ کی عبادت گاہیں معاشرے میں دین زندہ ہونے کی علامت ہوتی ہیں۔ دشمن ان کو تباہ کرکے دین کی روح کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔لَهُدِّمَتْ
9. دشمن کو عبادت گاہ کے نام یا مذہب سے فرق نہیں پڑتا۔ خواہ وہ خانقاہیں (صوامع)، گرجا گھر (بیَع)، کنیسے (صلوات) ہوں یا مساجد، جو بھی اللہ کے ذکر اور بندگی کا مرکز ہو، کفار اور ظالم کی آنکھوں میں کھٹکتی ہیں اور وہ اس کے مخالف ہوتے ہیں۔ صَوامِعُ- بِیَعٌ- صَلَواتٌ- مَساجِدُ
10. دینی مراکز کا بنیادی مقصد، اللہ کا ذکر ہے۔ یہ تمام مقامات اسی لیے مقدس ہیں کہ یہاں اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے، اور یہی ان کا اصل روحانی پہلو ہے۔ یُذْکَرُ فِیهَا اسْمُ اللَّهِ
11. قرآن ان مساجد کو پسند کرتا ہے جہاں کثرت سے اللہ کو یاد کیا جائے۔ وہ جگہیں جو اللہ کی یاد سے آباد ہوں، زیادہ مقدس ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کو رسمی نہ بنایا جائے، بلکہ مسلسل ذکر الہی کیا جائے۔کَثِیراً
12. اللہ کی مدد ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کے دین کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ جو لوگ اس کے دین کی سربلندی کے لیے محنت کرتے ہیں، وہ ضرور ان کی مدد فرمائے گا۔ لیکن یہ مدد صرف تب آتی ہے جب ہم خود کوشش کریں۔ لَیَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ یَنْصُرُهُ
ان آیات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دین اور عبادت گاہوں کی حفاظت نہ صرف ایک دینی فریضہ ہے بلکہ انسانی آزادی اور عدل کے قیام کے لیے بھی ضروری ہے۔ دین کا تحفظ، اللہ کا ذکر اور عبادت گاہوں کی بقا کے لیے جدوجہد کرنا ہر مومن کی ذمہ داری ہے۔ جو لوگ اس راہ میں کھڑے ہوں گے، اللہ ان کی نصرت کرے گا۔