یمن پر قابو پانے کے لئے اسرائیل کی نئی چال، افریقی ممالک کے ساتھ پینگیں بڑھائی!

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق اس وقت کہ جب صنعاء نے غزہ کی ناکہ بندی میں شدت پیدا کرنے کے نتیجے میں بحیرہ احمر میں صیہونی بحری جہازوں پر دوبارہ حملے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، قابض رژیم اور مغربی حامیوں کی یمن کے خلاف نئی جنگی چال سامنے آئی ہے۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ غزہ میں فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں صنعا کی کاروائیوں نے صیہونی رژیم پر وسیع دباؤ ڈالا ہے اور یہ امریکہ اور برطانیہ کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہے، کیونکہ وہ ان حملوں کو روک نہیں سکے اور نہ ہی اس کی طاقت کو کمزور کر سکے۔ 

 صہیونی اکیڈمی کے تجزیہ کار “ڈینی اسٹرائنویچ” کا خیال ہے کہ گذشتہ سال یمن کی مسلح افواج کے خلاف اسرائیل اور نام نہاد بین الاقوامی اتحاد کے اقدامات اس تحریک کے خلاف ڈیٹرنس کا توازن پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ 
پہلے تو اسرائیلیوں نے یمن سے نمٹنے کے لیے امریکی-برطانوی اتحاد پر بھروسہ کیا تھا لیکن اب انہوں نے اپنی حکمت عملی ان ممالک سے آزاد کر لی ہے۔
 اس سلسلے میں صیہونی حکومت نے یمن سے ملحقہ افریقی ریاستوں میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے۔ یہ 2025 کے لیے تل ابیب کی حکمت عملی دکھائی دیتی ہے جس میں ایتھوپیا کو اس منصوبے کا مرکزی کردار حاصل ہے۔ 
 صیہونی وزیر خارجہ گدعون ساعر نے اپنے ایتھوپیا کے ہم منصب گائیڈن ٹموتھی سے ملاقات کی اور انصار اللہ کے خطرات پر تبادلہ خیال کیا۔ 

اس ملاقات کے اختتام پر فریقین نے اعلان کیا کہ “یمن کی انصار اللہ اسرائیل، افریقہ اور عالمی نظام کے لئے خطرہ ہے!”

 صنعا کی پالیسیوں کے مخالف تجزیہ کاروں کو امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دوران واشنگٹن سابق امریکی صدر جو بائیڈن سے مختلف انداز اختیار کرے گا اور تحریک انصار اللہ کو تباہ کرنے یا اس کی علاقائی طاقت کو تباہ کرنے کی کوششوں میں بنیادی تبدیلیاں کرے گا۔
 میڈیا رپورٹس کے مطابق مغربی، اسرائیلی اور خلیجی ماہرین خطے کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے کئی اہم نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

1 – غزہ کے حمایتی محاذ میں صنعاء کی شمولیت نے یمن کو مزاحمت کے محور میں ایک بنیادی حیثیت دلائی ہے اور اس طرح عراق اور قرن افریقہ میں انصار اللہ کی موجودگی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ ملک ایک علاقائی طاقت بن گیا ہے جس کے اس جنگ میں کردار نے عرب اور اسلامی ممالک اور آزادی کی تحریکوں کو متاثر کیا ہے۔

 2- انصار اللہ اپنے آپ کو مزاحمتی محور کی پہلی صف میں دیکھتی ہے اور ان حالات کے نتیجے میں وہ خود کو غزہ کی پٹی میں مزاحمت کی مدد کرنے کا پابند سمجھتی ہے اور اس طرح اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگ میں داخل ہوسکتی ہے۔

3 – یمن کی انصار اللہ کے رہنما عبدالملک الحوثی کی فیصلہ سازی کی رفتار پر ایک نظر:
 اسرائیلی بحری جہازوں پر دوبارہ حملوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد، الحوثی مزاحمتی محور کی کشش ثقل کا مرکز بن گیا ہے۔

4 – موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ یمن کے ساتھ محاذ آرائی کی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں۔ 

تھنک ٹینکس کا خیال ہے کہ انہیں ایک طویل المدتی جنگ پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور یمن کے خلاف حملوں کو وسیع کرنا چاہیے اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف تباہ کن حملوں اور انصار اللہ کے سرکردہ رہنماؤں کو نشانہ بنانا چاہیے، تاکہ وہ ان کے درمیان اندرونی یکجہتی کو تباہ کر سکیں۔ فوجی انفراسٹرکچر پر حملہ اس حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے۔ 

5- امریکہ اور صیہونی رژیم کے حامیوں کا خیال ہے کہ واشنگٹن کو ریاض پر دباؤ جاری رکھنا چاہیے تاکہ وہ اس ملک کو یمن کے خلاف بین الاقوامی اتحاد میں شامل کر سکے یا کم از کم پس پردہ اس ملک کی مدد سے فائدہ اٹھا سکے۔

6 – یمن کی انصار اللہ کا نام دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کرنا اور اس اس کی تجارتی اور سرکاری شخصیات کے خلاف پابندیاں عائد کرنا غزہ کی حمایت میں انصار اللہ کے موقف میں تبدیلی نہیں لا سکتا۔ 

7- ایک سال سے زیادہ جاری رہنے والی جنگ کے پہلے دور کے بعد انصار اللہ کا مضبوط ہونا اور اس کی غیر متوقع فوجی صلاحیت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ تحریک مستقبل میں مزید سپرائز دے سکتی ہے۔

8 – یمن کی انصاراللہ کے ایران پر انحصار کے دعووں کے باوجود، بیشتر مغربی اور خلیجی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ تحریک ایران سے مکمل طور پر آزاد ہے اور اپنے فیصلے قومی خصوصیات اور جامع اسلامی  فریم ورک کے اندر اور مکمل طور پر داخلی اصولوں کی بنیاد پر کرتی ہے۔

بلاشبہ یہ فیصلے ایران کے ساتھ سیاسی اور عسکری ہم آہنگی میں ہیں اور مغرب کے تسلط اور صیہونی قبضے کے بارے میں دونوں ممالک کے مشترکہ فہم اور ان کا مقابلہ کرنے کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔”

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *