جھوٹ بول رہی پاکستانی فوج، بلوچ لبریشن آرمی نے 50 سے زائد فوجی جوانوں کو کیا ہلاک! عینی شاہدین نے کھول دی قلعی

ٹرین سے رہا ہونے والے کچھ لوگوں نے پاکستانی فوج کو بے نقاب کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم از کم 60-50 پاکستانی فوجیوں کی لاشیں دیکھی ہیں جو ٹرین کے اندر پڑی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>آئی اے این ایس</p></div><div class="paragraphs"><p>آئی اے این ایس</p></div>

آئی اے این ایس

user

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں 11 مارچ 2025 کو پیش آئے جعفر ایکسپریس ٹرین ہائی جیکنگ کے واقعے نے پورے علاقے میں خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری لیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ٹرین کو ہائی جیک کر کئی پاکستانی فوجیوں کو مار ڈالا ہے۔ وہیں پاکستانی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے قریب 30 بلوچ جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا ہے۔ حالانکہ پاکستان نے اپنے ہلاک فوجیوں کی تعداد ظاہر نہیں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی ایل اے نے پاکستانی فوج پر جھوٹ بولنے کا الزام عائد کیا ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کچھ ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن مین ٹرین سے بچ کر آئے لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بڑی تعداد میں پاکستانی فوجی شہید ہوئے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر کئی صارفین نے اس حادثے کے حوالے سے پاکستانی فوج کے دعووں پر سوال اٹھائے ہیں۔ کچھ نے لکھا ہے کہ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر 200 سے زائد خالی تابوت پہنچائے گئے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ ہلاکتوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہیں۔  ایک صارف نے لکھا کہ ’’27 گھنٹے بعد بھی فوج ناکام رہی، اور اب تابوتوں کی تصویریں سچ بیاں کر رہی ہیں۔‘‘ ایک دیگر صارف نے دعویٰ کیا کہ مقامی لوگوں اور کچھ رہا ہوئے مسافرین نے فوج کے آپریشن کی ناکامی کی تصدیق کی ہے۔ اس کے علاوہ، ٹرین سے رہا ہونے والے کچھ لوگوں نے بذات خود بھی پاکستانی فوج کو بے نقاب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم از کم 60-50 پاکستانی فوجیوں کی لاشیں دیکھی ہیں جو ٹرین کے اندر پڑی ہیں۔

خبر رساں ادارہ ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق، جو مسافر بھاگ گئے یا جنہیں بلوچ جنگجوؤں نے رہا کر دیا، انہوں نے بتایا کہ جب بندوق برداروں نے ٹرین پر قبضہ کر لیا تو انہوں نے شناختی کارڈ چیک کی۔ اس کے بعد انہوں نے فوجیوں کو گولی مار دی، لیکن کچھ کنبوں کو چھوڑ دیا گیا۔ فرار ہونے میں کامیاب رہے محمد نوید نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’’انہوں نے ہمیں ایک ایک کر کے ٹرین سے باہر آنے کو کہا۔ انہوں نے خواتین کو الگ کیا اور انہیں جانے کو کہا۔ انہوں نے بزرگوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ انہوں نے ہم سے باہر آنے کو کہا اور کہا کہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ جب قریب 185 لوگ باہر آئے تو انہوں نے کچھ لوگوں کو منتخب کر کے گولی مار دی۔‘‘

38 سالہ عیسائی مزدور بابر مسیح نے بدھ (13 مارچ) کو اے ایف پی کو بتایا کہ ’’ہماری خواتین نے ان سے التجا کی اور انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا۔ انہوں نے ہمیں باہر نکلنے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنے کو کہا۔ جب ہم بھاگ رہے تھے تو ہم نے دیکھا کہ ہمارے ساتھ ساتھ کئی اور لوگ بھی دوڑ رہے تھے۔‘‘ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، صوبہ پنجاب کے گوجرانوالہ ضلع کے رہائشی اسٹیل ورکر نعمان احمد بھی ٹرین میں سوار تھے، جو عید پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر لوٹنے کی امید کر رہے تھے۔ نیو یارک ٹائمز نے احمد کے حوالے سے کہا کہ ’’جب ہم نے دھماکہ سنا تو ہم فرش پر لیٹ گئے اور گاڑی کا دروازہ بند کر دیا، تاکہ گولیوں سے بچ سکیں۔ کچھ ہی دیر بعد ایک جنگجو آیا، خواتین اور بچوں کو باقی مسافرین سے الگ کر دیا، جنہیں پاس کی پہاڑی کی جانب جانے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ کچھ زخمی مسافرین ٹرین کے اندر ہی رہ گئے۔‘‘ علاوہ ازیں احمد نے کہا کہ ’’انہوں نے انہیں باہر آنے کا حکم دیا جب وہ باہر نہیں آئے تو بندوق بردار اندر داخل ہو گئے اور ان تمام کو گولی مار دی۔‘‘

قابل ذکر ہے کہ ہائی جیک ہوئی ٹرین بولان درہ کے ایک دور افتادہ پہاڑی علاقے میں کھڑی تھی، جہاں موبائل نیٹورک نہیں ہے اور چاروں طرف سرنگیں اور چٹانیں ہیں۔ اس وجہ سے ریسکیو آپریشن میں کافی مشکلیں پیش آئیں۔ فوج نے ڈرون اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا، لیکن بی ایل اے نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک ڈرون کو مار گرایا۔ واضح ہو کہ بلوچستان طویل عرصے سے عدم استحکام  کا شکار رہا ہے، جہاں بلوچ علیحدگی پسند گروپ آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستان حکومت ان کے قدرتی وسائل کا استحصال کر رہی ہے، خاص طور پر چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور ’سی پی ای سی‘ کے ذریعہ، جس میں چین کا بڑا ہاتھا ہے۔ بی ایل اے اس علاقے میں پہلے بھی کئی بڑے حملے کر چکی ہے، لیکن جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ کو اب تک کا سب سے دلیرانہ قدم تصور کیا جا رہا ہے۔


[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *