خواتین ولڑکیوں میں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ بے پردگی میں اضافہ‘ لمحہ فکر

[]

حیدرآباد: مسلمانوں میں بے حیائی بڑھتی جارہی ہے۔ جیسے جیسے تعلیم عام ہورہی ہے۔ اس طرح خواتین بے پردہ ہورہی ہیں۔ ذرائع کے بموجب ہماری لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں ملازمت کررہی ہیں۔

ڈیوٹی پر پہونچنے کے بعد وہ کیا کرتی ہیں‘ گھر والوں کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ وہ اسلامی معاشرہ سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ دنیا کی چمک دمک میں مشغول ہوتی جارہی ہیں اور دین سے دور ہوکر غیر مسلم کو اپنا ساتھی بنانے تُلی ہوئی ہیں۔ بہت کم لڑکیاں ہیں جو برقع اتارنا اور اپنی مذہبی اقدار کو نہیں چھوڑتیں۔

جبکہ ادھر پارکوں میں اور رات کے اوقات میں دیکھو تو برقع ہی نظر آتے ہیں۔ دن کے اوقات میں بھی جہاں دیکھو برقع پوش خواتین سڑکوں پر نظر آرہی ہیں۔ کھلے عام غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ گاڑیوں پر بیٹھ کر بے شرمی کے ساتھ گھومتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ماں باپ سمجھتے ہیں کہ بیٹی کام سے گھر سے باہر گئی ہوئی ہے۔ وہ کیا کرکے آرہی انہیں اس کا ہوش نہیں رہتا۔ اصل میں ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں تعلیم وتربیت دیں۔

سب سے پہلے انہیں دینی تعلیم دلوائیں اور ان پر کڑی نظر رکھیں۔ وہ سل فون پر کس سے بات کرتی ہیں۔ یا اگر وہ کالج جاتی ہیں تو کب جاتی ہیں اور کب واپس آتی ہیں۔ ان سب چیزوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ لڑکی کسی غیر مسلم کے ساتھ چلے گئی یا اس کے ساتھ شادی کرلی تو پھر بعد میں پریشان ہونے سے بہتر ہے کہ پہلے نظر رکھیں تو زیادہ بہتر ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ برقع پوش خواتین میں کچھ غلط خواتین بھی شامل ہیں جو سڑکوں پر کھڑے ہوکر برقع پوش شریف خواتین کو بدنام کررہی ہیں۔ ان کی وجہ سے لوگ دوسری خواتین کو بھی غلط نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ زیر تعلیم لڑکیاں بھی اپنے والدین کو دھوکا دیکر غلط حرکتوں میں ملوث ہوتی ہیں۔ انہیں قابو کرنا بہت ضروری ہے۔ بصورت دیگر مسلم معاشرہ داغدار ہوجائے گا۔

نئی نسل کے مستقبل کو اسلام کی طرف راغب کرنا بہت ضروری ہے۔ آج اگر لڑکی دینی تعلیم حاصل کرے گی تو کل وہ ماں بن کر اپنی اولاد کو سیدھی راہ پر چلائے گی۔ اگر وہ سیدھے راستہ سے بھٹک جائے تو آنے والی نسل تباہ ہوجائے گی۔ اگر وہ مرتد ہوگئی تو اس کی دنیا اور آخرت دونوں ہی تباہ ہوجائیں گے۔ یہ سب باتیں مسلم لڑکیوں کے سرپرستوں کو سوچنا چاہئے۔ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ماں باپ سے اولاد کی تربیت سے متعلق سوال کرے گا۔ اس کو ذہن نشین رکھنا چاہئے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *