افغانستان کی تشویشناک صورتحال، داعش سے پورے خطے کو خطرہ ہے، ایران

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر اور مستقل نمائندہ امیر سعید ایروانی نے کہا ہے کہ افغان مہاجرین کے حوالے سے ایران کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور یہ ہمیشہ انسانی ہمدردی کے اصولوں پر مبنی رہی ہے۔

افغانستان سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ایران گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے اور اس بوجھ کو برداشت کررہا ہے جو 2021 میں امریکہ کے غیر منظم انخلا کے بعد مزید بڑھ گیا ہے۔

ایروانی نے مزید کہا کہ قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو ایران میں کسی قسم کی پابندی یا مشکلات کا سامنا نہیں ہے۔ ایرانی قونصل خانے روزانہ 5000 ویزے جاری کرتے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ جو افراد واپس بھیجے گئے ہیں، وہ غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہوئے تھے۔ دہشت گردی اور سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر ایران غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے افراد کو واپس بھیجنے کی پالیسی جاری رکھے گا۔”

انہوں نے افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ سمیت جو ممالک اس بحران کے ذمہ دار ہیں اور جن کے غیر منظم انخلا نے حالات کو مزید خراب کیا، انہیں اپنی ذمہ داریاں نبھانا چاہیے۔

انہوں نے افغان حکمران جماعت طالبان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ امدادی کارروائیوں میں مداخلت سے گریز کریں اور عوام کو بلا رکاوٹ ضروریات تک رسائی فراہم کریں۔

ایروانی نے افغانستان کی سیکیورٹی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ داعش-خراسان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے اور عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ افغانستان میں گذشتہ دو دہائیوں سے دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کے پیش نظر طالبان حکام کو چاہیے کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کریں، انسداد دہشت گردی کو اولین ترجیح دیں اور ان گروہوں کو مؤثر طریقے سے ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔

انہوں نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اور طبی اداروں میں خواتین کی فعالیت پر پابندی جیسے اقدامات انہیں بنیادی حقوق سے محروم کر رہے ہیں، جس سے افغانستان میں صحت اور تعلیم کے شعبے میں بحران شدت اختیار کررہا ہے۔

ایروانی نے مزید کہا کہ یہ پابندیاں اسلامی اصولوں سے متصادم ہیں اور افغان ثقافتی روایات کے بھی خلاف ہیں۔ ہم طالبان حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور خواتین کے حقوق کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کریں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *