مسلمان اپنے حقوق کے دوبارہ حصول کے لئے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور: صدر جمعیت علمائے ہند مولانا ارشد مدنی

نئی دہلی: جمعیت علمائے ہند نے وقف ترمیمی بل کے خلاف آل انڈیا مسلم پرنسل لاء بورڈ اور دیگر تنظیموں کے احتجاج کی تائید کردی۔ اس نے اتوار کے دن دعویٰ کیا کہ مسلمانوں کو اپنے حقوق کے دوبارہ حصول کے لئے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

صدر جمعیت مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ 12 فروری کو جمعیت ورکنگ کمیٹی میٹنگ میں طئے پایا کہ وقف ترمیمی بل اگر منظور ہوگیا تو جمعیت علمائے ہند کے تمام ریاستی یونٹس متعلقہ ریاستی ہائی کورٹس میں اس قانون کو چیلنج کریں گے۔ اس کے علاوہ جمعیت سپریم کورٹ سے بھی رجوع ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ عدالتیں ہمارے لئے آخری چارہ کار ہے۔

13 مارچ کو جنتر منتر پر مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر قومی تنظیموں کے احتجاج کی تائید کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ مسلمانوں کو اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر نکلنے کو مجبور کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 12 برس سے مسلمانوں نے بڑی جزو تحمل اور رواداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ وقف املاک کے تعلق سے مسلمانوں کی تشویش کو خاطر میں نہیں لایا جارہا ہے اور ایک غیر دستوری قانون زبردستی دھوپا جارہا ہے۔

یو این آئی کے بموجب صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ پچھلے بارہ سال سے مسلمان انتہائی صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں، لیکن اب جبکہ وقف املاک کے تعلق سے مسلمانوں کی تشویش اورتحفظات کو نظرانداز کرتے ہوئے زبردستی ایک غیر آئینی قانون لایاجارہاہے توپھر احتجاج کے علاوہ کوئی دوسراراستہ کہاں بچا رہتاہے۔آج یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق مولانا مدنی نے کہا کہ خاص طورپراپنے مذہبی حقوق کے لئے پرامن احتجاج ملک کے ہر شہری کا جمہوری حق ہے۔

انہوں نے آگے کہا کہ جب سے یہ وقف ترمیمی بل لایا گیا ہے ہم جمہوری طریقہ سے حکومت کو یہ باورکرانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں کہ وقف ایک خالص شرعی معاملہ ہے، وقف املاک تووہ عطیات ہیں جو ہمارے بزرگوں نے قوم کی فلاح وبہبودکے لئے وقف کی ہیں، اس لئے ہم اس میں کسی طرح کی حکومتی مداخلت کو برداشت نہیں کرسکتے۔انہوں نے کہا کہ بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے حوالہ کرنے کاڈھونگ بھی کیا گیا اوراپوزیشن پارٹیوں کے ممبران کی تجاویزاورمشورہ کو ردکردیاگیا، جو چودہ ترمیمات کی گئیں ان میں بھی شاطرانہ اندازمیں ایسی دفعات جوڑدی گئی جن سے اوقاف پر حکومت کے قبضہ کرنے کی راہ آسان ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اول دن سے یہ کہتے آئے ہیں کہ مسلمان ایسے کسی قانون کو تسلیم نہیں کرسکتے جس سے وقف کی ہیئت اورواقف کی منشابدل جائے۔ کیونکہ وقف قرآن وحدیث سے ثابت ایک مذہبی چیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں ملک کے تمام انصاف پسند شہریوں کامسئلہ ہے، اب یہ طے کرناہی پڑے گاکہ ملک آئین وقانون سے چلے گایاکسی فرد، گروہ یاپارٹی کی مرضی اورمنشاء کے مطابق چلے گا، پارلیمنٹ میں اکثریت کایہ مطلب ہرگزنہیں ہوسکتاکہ آپ اپنی مرضی کا قانون لاکر کسی مذہبی اقلیت سے اس کے جینے کاحق بھی چھین لیں،یالوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کردیں۔

مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگر خدا نخواستہ نیا وقف قانون پاس ہو جاتا ہے تو جمعیۃ علماء ہند کی تمام صوبائی یونٹ اس قانون کو اپنے اپنے صوبوں کے ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گی اور ساتھ ہی جمعیۃ علماء ہند سپریم کورٹ کا بھی رخ اس یقین کے ساتھ کرے گی کہ ہمیں انصاف ضرور ملے گا کیوں کہ ہمارے لئے آخری سہارا عدالتیں ہی رہ جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا کوئی قانون منظور نہیں جو شریعت کے خلاف ہو،مسلمان ہر چیز سے سمجھوتہ کرسکتا ہے لیکن اپنی شریعت سے نہیں،یہ مسلمانوں کے وجودکا نہیں بلکہ ان کے حقوق کا سوال ہے۔

موجودہ حکومت نیا وقف ترمیمی قانون لاکر مسلمانوں سے وہ حقوق چھین لینا چاہتی ہے جو اسے ملک کے آئین نے دئیے ہیں۔جمعیۃ علماء ہند قانونی لڑائی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں،دوسری اقلتیوں اور انصاف پسند لوگوں کے ساتھ تمام جمہوری و دستوری ذرائع کا بھی استعمال کرے گی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ حکومت میں شامل خودکو سیکولر کہنے والی ان پارٹیوں کو جن کی کامیابی میں مسلمانوں کا بھی ہاتھ ہے ہم نے جگہ جگہ تحفظ آئین ہند کانفرنس منعقدکرکے انہیں یہ باورکرانے کوشش کی کہ جو کچھ ہورہاہے بہت غلط ہورہاہے، مگر اب مرکزی کابینہ بھی اس کو منظوری دے چکی ہے، اس کا صاف مطلب ہے کہ اس بل کو ان پارٹیوں نے اپنی کھلی حمایت دے رکھی ہے، یہ مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ ملک کے آئین وقانون کے ساتھ بھی کھلواڑ کررہے ہیں، ان پارٹیوں کو ملک کے سیکولردستوراور مسلمانوں سے زیادہ ان کا اپنا سیاسی مفادعزیزہے، اس لئے آج ملک میں یہ جو کچھ ہورہاہے، اس کے لئے سیکولرازم کادعویٰ کرنے والی یہ پارٹیاں بھی برابرکی شریک ہیں۔ ملک کو تباہی اوربربادی کی طرف دھکیلنے میں یہ کھلی معاونت کررہی ان کا یہ کردارفرقہ پرست طاقتوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ یہ دوست بن کر پیٹھ پر خنجرگھوپنے کا کام کررہی ہیں۔

مولانا مدنی نے اخیر میں کہا کہ بلاشبہ فرقہ پرستی اور مذہب کی بنیاد پر نفرت پیدا کرنے سے ملک کے حالات انتہائی خطرناک ہیں،لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ امید افزا بات یہ ہے کہ تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود ملک کی اکثریت فرقہ پرستی کے خلاف ہے۔ہم ایک زندہ قوم ہیں اور زندہ قومیں حالات کے رحم و کرم پر نہیں رہتیں بلکہ اپنے کردار و عمل سے حالات کا رخ پھیر دیتی ہیں۔یہ ہمارے امتحان کی سخت گھڑی ہے،چنانچہ ہمیں کسی بھی موقع پر اپنے دین، صبر، امید اور استقلال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔قوموں پر آزمائش کی گھڑیاں آتی رہتی ہیں۔مسلمان دنیا کے اندر فنا ہونے کے لئے نہیں آیا ہے۔مسلمان چودہ سو سال سے انہیں حالات میں زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا۔ہم انگریزوں کے ظلم وجبر کے سامنے نہیں جھکے اور پھانسی کے پھندے کو چومنا گوارا کیا تو اب ہمیں کوئی طاقت نہیں جھکا سکتی۔مسلمان صرف ایک اللہ ہی آگے اپنا سر جھکا تا ہے۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *