
حیدر آباد: حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صاحب صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف واکرم بنایا، اس کی فطرت میں نیکی اور بدی ، بھلائی اور برائی ، تابعداری و سرکشی اور خوبی و خامی دونوں ہی قسم کی صلاحیتیں اور استعداد میں یکساں طور پر رکھ دی ہیں۔
اس کا ثمرہ اور نتیجہ ہے کہ کسی بھی انسان سے اچھائی اور برائی دونوں ہی وجود میں آسکتی ہیں۔ ایک انسان سے حسنات بھی ممکن ہیں اور سیئات بھی ، اس کے باوجود کوئی سیئات و معصیات سے مجتنب ہو کر اپنی زندگی اور اس کے قیمتی لمحات کو حسنات و طاعات سے مزین اور آراستہ کرلے تو یہ اس کے کامیاب اور خالق و مخلوق کے نزدیک اشرف وا کرم ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے اور یہی تقوی و پرہیز گاری ہے جو روزہ کا مقصد اصلی ہے ۔
استقبال رمضان سے آپ کی مراد اگر یہ ہے کہ ماہ رمضان آنے سے پہلے رمضان المبارک کی تیاری کرنا اور صوم وصلوٰۃ کے لیے اپنے آپ کو مستعد رکھنا اور ماہ رمضان شروع ہونے سے پہلے رمضان کے دوران کی ترتیبات کو مرتب کر لینا اور اس کی اہمیت اور فضیلت کو دل میں اجاگر کرنے کی کوشش کرنا تو واضح رہے کہ یہ اعمال واہتمام کی کیفیات شریعت میں ممدوح اور مطلوب ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ جب ماہ مبارک آنے والا ہوتا تو آپ علیہ الصلاة والسلام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں اس ماہ کی اہمیت اور فضیلت کو اجا گر فر ماتے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرماتے اس کے پانے کی اثرت سے دُعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے شوق و محبت سے ماہ رمضان کا استقبال فرماتے لیکن یادر ہے کہ مطلق ماہ شعبان میں رسول اللہ ﷺ کا زیادہ روزے رکھنا بیشمار احادیث میں منقول ہے لیکن ماہ رمضان سے چند دن (ایک، دودن ) پہلے روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے تا کہ رمضان کا استقبال مکمل نشاط و انبساط اور چستی اور تیاری کے ساتھ کیا جائے۔
کمزوری اور ضعف واضمحلال کے ساتھ نہیں ۔ اس طرح انہوں کہا کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جن جکڑ دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رکھا جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا ، پکارنے والا پکارتا ہے۔ اے خیر کے طلب گار !
آگے بڑھ ، اور شر کے طلب گار ! رک جا اور آگ سے اللہ کے بہت سے بندے آگ سے آزاد کئے جاتے ہیں اور ایسا ( رمضان کی ) ہر رات کو ہوتا ہے ۔ سی طرح ایک روایت کے مطابق رمضان کا چاند دیکھنے پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر و برکت اور سلامتی کی دعا مانگی اور اس کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! یہ رمضان کا مہینہ ہے۔
اس میں شیاطین جکڑ دئے گئے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئے گئے ہیں اور اس میں جنتوں کے دروازے کھول دئے گئے ہیں۔ اور ہر رات کو منادی اعلان کرے گا کہ کیا کوئی مانگنے والا ہے تا کہ اسے عطا کیا جائے ، کیا کوئی بخشش کا طلبگار ہے تا کہ میں اسے بخش دوں ۔