شہید نصراللہ اور شہید صفی الدین کی تدفین کا عظیم اجتماع اور اس کے اسٹرٹیجک پیغامات

مہر نیوز ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: حزب اللہ لبنان کے شہید جنرل سکریٹری سید حسن نصراللہ کی عظیم تدفین کے پیچھے کئی اسٹرٹیجک پیغامات اور مقاصد ہیں، جنہیں مختلف زاویوں سے اہمیت دی جارہی ہے۔

یہ تقریب محض ایک روایتی تدفین یا ایک رسم نہیں بلکہ مقاومت کے ساتھ تجدید عہد اور صیہونی حکومت کے خلاف مضبوط موقف کا اظہار ہے۔ اس تقریب میں شریک افراد اس موقع کو مقاومت کے ساتھ وفاداری کی تجدید اور اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں عزم و استقامت کے اظہار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ شہید سید حسن نصراللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کی تدفین کا یہ تاریخی اور غیر معمولی واقعہ کئی اعتبار سے منفرد ہے۔

اول: اہم پہلو یہ ہے کہ تشییع کا عظیم اجتماع کسی صدر یا کسی اعلی حکومتی عہدیدار کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ ایک عظیم شہید کی عظمت کا مظہر تھا جس نے لبنان اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ اگر شرکاء کی تعداد پر پابندیاں نہ ہوتیں تو دوسرے ممالک سے بھی لوگوں کی شرکت سے ایک عالمی تاریخی واقعہ وجود میں آتا۔

دوم: شہید نصراللہ اور شہید ہاشم صفی الدین کی تدفین میں تاخیر کے باوجود اس سے عوامی جذبات پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ جنگی حالات کی وجہ سے تدفین میں تاخیر نے اس حادثے کی شدت کو کم نہیں کیا بلکہ اس نے عوام کے جذبات میں مزید شدت پیدا کی اور ان کی تیاری کو بڑھایا۔ اس تاخیر نے ایک منفرد واقعہ تخلیق کیا جس میں شرکاء مقاومت کے ساتھ تجدید عہد اور وفاداری کا اظہار کیا۔

سوم: دشمن کے وہ منصوبے جو اس نے مقاومت کو عوامی سطح پر تنہا کرنے اور شکست دینے کے لیے کیے تھے، شہید نصراللہ اور شہید ہاشم صفی الدین کے ساتھ وفاداری کے اعلان کے بعد ناکام ہوگئے۔ عوامی سطح پر ان شہداء کے ساتھ یکجہتی نے دشمن کے عزائم کو ناکام بنادیا۔

تشییع جنازہ کے اسٹرٹیجک پیغامات

اس رپورٹ میں اس اجتماع کی اسٹرٹیجک اہمیت کو درج ذیل نکات کے ذریعے وضاحت سے بیان کیا گیا ہے:

1۔ صہیونی منصوبوں کی ناکامی

اس تقریب کا ایک اہم اسٹرٹیجک پیغام صہیونی حکومت کے لیے تھا جو لبنان کو مزاحمت سے الگ کرنے اور 1982 سے پہلے کی حالت میں واپس لانے کی کوشش کررہی ہے تاکہ اپنے ناپاک منصوبوں کو آسانی سے آگے بڑھا سکے۔ لبنان کے عوام کا مزاحمت کی پیروی کرنا اور اس کے ساتھ تجدید عہد کرنا ایک عملی اظہار ہے کہ لبنانی مزاحمت اپنے دفاع کی پوزیشن پر مستحکم ہے اور وہ لبنان کی سالمیت اور اس کی حفاظت کے لیے پرعزم ہے۔

2- امریکہ کے غلط اندازے

امریکہ کی یہ کوشش کہ وہ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو لبنان میں عملی جامہ پہنائے۔ امریکی حکمت عملی کا مقصد لبنان پر اپنی حاکمیت قائم کرنا اور اس کے ذریعے خطے میں اپنے اسٹرٹیجک مفادات کو آگے بڑھانا ہے، خاص طور پر توانائی کے وسائل اور لبنان کی جغرافیائی سیاسی حیثیت کو استعمال کرکے اپنے حریفوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ لبنان میں مزاحمت کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں۔ تشییع کے اس اجتماع میں لبنان کے مختلف طبقات کی شرکت ایک پیغام ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لبنانی عوام امریکی اور صہیونی مقاصد کے لیے استعمال ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

3- وفاداری کا اعلان

حزب اللہ کی جانب سے عوامی سطح پر تشییع کا اعلان کرکے اپنے دو عظیم رہنماؤں کے ساتھ وفاداری کا اعلان دراصل حزب اللہ کی قیادت اور اس کے ارکان کے درمیان ہم آہنگی کی علامت ہے۔ لبنان کے عوام اور حزب اللہ کے اراکین شہید سید حسن نصراللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کے نقش قدم پر چلنے کا عہد جاری رکھیں گے۔

شہید حسن نصراللہ کی عوامی تشییع کے ساتھ ہی وہ پیشگوئیاں بھی حقیقت بن گئیں جو حزب اللہ لبنان کے شہید سربراہ نے کی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے اور وہ تنہا لڑنے کے قابل نہیں۔ امریکہ اس جنگ کا اصلی کھلاڑی ہے۔ ان کے اس مشہور قول کا مفہوم یہ تھا کہ اس جنگ کا مقصد مسئلہ فلسطین کو ختم کرنا اور غزہ کے عوام کو ہجرت پر مجبور کرنا ہے۔ طوفان الاقصی وہ زلزلہ ہے جس نے اسرائیل کے ستونوں کو ہلا دیا ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ یہ پیشگوئیاں پوری ہوئیں اور یہ ثابت ہوگیا کہ سید حسن نصر اللہ کا موقف درست تھا۔ جو لوگ اس تشییع میں شرکت کرتے ہیں وہ اس موقف کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کرتے ہیں۔ اس طرح یہ اجتماع محض ایک رہنما کی تعزیت یا عزت افزائی نہیں بلکہ مقاومت کی آمادگی اور امریکی-صہیونی جارحیت کے خلاف اس کی استقامت کا اعادہ ہے۔

4۔ مزاحمتی اقدار سے عہد

شہید سید حسن نصر اللہ اور شہید سید ہاشم صفی الدین کی تشییع کی تقریب دشمن کے لیے ناقابل برداشت تھی، جبکہ لبنان اور دنیا بھر میں مزاحمت کے حامیوں کے لیے یہ ایک موقع تھا کہ وہ مزاحمت کے اصولوں کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کریں۔ یہ دن لبنان اور خطے کے لیے غیر معمولی دن تھا۔ یہ وہ دن ہے جب لبنان کے شہید رہنما کے نقش قدم پر چلنے کا عہد دوبارہ تازہ کیا گیا اور اس بات کا پیغام دیا گیا کہ شہید نصر اللہ کے مکتب فکر کے اصولوں کے مطابق خطے میں بدلے ہوئے حالات کو واپس ماضی کی طرح نہیں آنے دیا جائے گا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *