
سوال:- میری عمر ساٹھ سال ہے، دس سال پہلے میری بیوی کا انتقال ہوگیا ، مجھے اس وقت خدمت کے لئے ایک شریک زندگی کی ضرورت ہے اور مالی حالات بھی ایسے نہیں ہیں کہ میں اس کی کفالت کرسکوں،
میں ان حالات میں دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہوں؛ لیکن میرے لڑے اس کی اجازت نہیں دیتے ہیں، کیا ان کا یہ عمل درست ہے ؟ (محمد ریحان بشیر، ملے پلی)
جواب:- بعض دفعہ بوڑھاپے میں بھی انسان کے لئے بیوی ایک ضرورت بن جاتی ہے ؛ کیوںکہ بیوی تو ہر طرح کی خدمت کرسکتی ہے ، بیٹا بیٹی یا کوئی خادم خادمہ ہر خدمت نہیں کرسکتے؛
اس لئے آپ کے لڑکوں کا یہ رویہ قطعاً غلط اور غیر شرعی ہے، فقہاء نے بھی صراحت کی ہے کہ اگر والد کو خدمت کی ضرورت ہو تو اولاد پر خادم کا انتظام کرنا واجب ہے خواہ وہ بیوی کی شکل میں ہو، یا خادم کی شکل میں:
إلا أن یکون بالأب علۃ لا یقدر علی خدمۃ نفسہ ویحتاج إلی خادم یقوم بشأنہ ویخدمہ ، فحینئذ یجبر الابن علی نفقۃ خادم الأب منکوحۃ کانت أو أمۃ ۔ (فتاویٰ ہندیہ : ۱؍۶۱۱)
اس لئے بچوں کو اس میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے ، نہ صرف اپنے والد کا نکاح کرنا چاہئے ؛ بلکہ گھر میں آنے والی سوتیلی والدہ کے اخراجات بھی برداشت کرنے چاہئیں ۔