[]
مہر خبررساں ایجنسی نے رائٹرز کے حوالے سے خبر دی ہے کہ تل ابیب کے پولیس کمانڈر نے بدھ کے روز نیتن یاہو کی انتہا پسند کابینہ کے ارکان کی سیاسی مداخلت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں کیونکہ ان پر مظاہرین کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کے لئے دباو ڈالا جارہا ہے۔
تل ابیب کے پولیس سربراہ ایمی اشید نے اپنی تقریر میں انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گوئیر کا ذکر نہیں کیا جنہوں نے مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
ایمی اشد کے مستعفی ہونے کے اعلان کے فوراً بعد سینکڑوں مظاہرین نے تل ابیب رژیم کے خلاف پرچم اٹھائے مارچ کرتے ہوئے “جمہوریت کی بحالی” کے نعرے لگائے۔
بعض نے ایک بڑی شاہراہ کو بلاک کرکے آگ لگا دی اور پولیس کے تشدد کا مقابلہ کیا۔
ایمی اشد نے اپنے ٹیلی ویژن بیان میں کہا کہ وہ وزراء کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے کیونکہ انہوں نے تمام قوانین کو توڑا اور پیشہ ورانہ فیصلوں میں کھل کر مداخلت کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اپنی تین دہائیوں کی سروس میں پہلی بار، مجھے ایک ایسی مضحکہ خیز حقیقت کا سامنا کرنا پڑا جس میں امن و امان کو یقینی بنانا وہ نہیں تھا جو انہوں نے مجھ سے کرنے کو کہا تھا، بلکہ امن مخالف اور بدامنی کے اقدامات کے بالکل برعکس تھا۔” وزراء کا یہ انتہا پسندانہ طرزعمل ہی نیتن یاہو کے اقتدار کو دوبارہ ختم کر سکتا ہے۔
دوسری طرف مظاہروں کے رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ وہ نیتن یاہو کے عدالتی اصلاحات کے اصرار کے ردعمل میں پیر سے بین گورین بین الاقوامی ہوائی اڈے پر احتجاجی مظاہرہ کریں گے اور دھرنے کے ذریعے نیتن یاہو پر کابینہ کی پالیسیوں کے خلاف دباؤ ڈالیں گے۔
واضح رہے کہ پچھلے 24 ہفتوں کے دوران مقبوضہ فلسطین کے شمال سے جنوب تک درجنوں شہروں جیسے تل ابیب، حیفا، مقبوضہ بیت المقدس، بیر شیبہ، رشون لیٹزیون اور ہرزلیہ میں نیتن یاہو کی انتہاپسند کابینہ اور عدالتی اصلاحات کے خلاف مظاہروں کا نا تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔