ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس‘پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786
اگر علماء ‘ خدا کے دوست نہیں تو دنیا بھر میں کوئی خدا کا دوست نہیں۔ وقف جیسے نازک موضوع پر بھی ہمارے علماء دو حصوں میں بٹ گئے ہیں۔ کچھ ایمان فروش عالم بی جے پی کی تائید کررہے ہیں تو حق پرست علمائے دین وقف قانون میں تبدیلی کے خلاف کمر کسے ہوئے ہیں۔ صرف کمر بستہ ہونے سے کام نہیں چلے گا ساری ملت کو دیگر ابنائے وطن کے ساتھ سڑکوں پر اترنا پڑے گا تاکہ فاشسٹ بی جے پی کے باغی سر کو کچلا جاسکے۔ وہ جس رویہ کو اپنائے ہوئے ہے اُسے یقینا غداری ہی کہا جائے گا کیونکہ عوام کو دو حصوں میں بانٹ دینا کوئی دانشمندی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ملک دشمن عمل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تمام سیکولر طاقتیں بی جے پی کے خلاف ایک جٹ ہوگئی ہیں اور وہ کبھی بھی کسی بھی وقت عملی میدان میں اتر سکتی ہیں تاکہ ملک میں امن و امان کو بحال کیا جاسکے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج ساری دنیا بی جے پی کی مذموم حرکتوں کی مذمت کررہی ہے لیکن بھاجپا اسے اپنی کامیابی سمجھ رہی ہے۔
پتہ نہیں کس وقت ہندوستان کی مخالف جمہوری حرکتوں کے خلاف دنیا متحد ہوجائے اور ہمارے عظیم ملک کے خلاف Sanctions عائد نہ ہوجائیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے لوک سبھا کے چناؤ میں اپنی شکست کے بعد وقف کا بل لے آئی تھی اور اسے پچھلے دنوں پارلیمنٹ میں پیش کردیا گیا۔ جے پی سی میں اپوزیشن کی زبردست مخالفت کے باوجود حکمران جماعت نے اس بل میں حزب اختلاف کے اعتراضات کو مسترد کردیا۔ یہ بل مسلمانوں کی آزادی اور ان کی ملکیت کے خلاف ایک زبردست وار ہے جس کو کسی بھی حالت میں روکنے کی ضرورت ہے۔
تلگو دیشم اور جے ڈی یو کی مخالفت کے بعد حکومت نے اس بل کو جے پی سی کے حوالے کیا تھا لیکن جتنی بھی میٹینگیں ہوئیں ایسا لگتا ہے کہ وہ صرف ایک ڈرامہ تھا کیونکہ اپوزیشن کے بے انتہا اہم اعتراضوں کو بالائے طاقت رکھ دیا گیا جس سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ بی جے پی کھلم کھلا مسلمانوں کی دشمن بن گئی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ مسلمان اپنے وطن میں آزادی کے ساتھ جی سکیں۔
انہیں مختلف موضوعات کے ذریعہ پریشان کیا جارہا ہے۔ اترکھنڈ کا یونیفارم سیول کوڈ‘ انتہائی شرمناک ہے۔ پتہ نہیں وہاں کی سرکار اسے یونیفارم قانون کیوں کہہ رہی ہے جبکہ اس نے Shceduled Tribes کو اس قانون سے مستثنیٰ کردیا ہے۔ جب مسلمانوں کو بھی اس طرح کا استثنیٰ دینے کی بات آتی ہے تو پتہ نہیں کیوں بی جے پی کو نانی یاد آجاتی ہے۔ جمہوریت میں عوام کی مرضی کے خلاف کسی بھی قانون کو مسلط نہیں کیا جاسکتا اور یہی خوبی جمہوریت کی جان کہلاتی ہے۔
اس دوران جمعیت العلماء ہند نے یونیفارم سیول کوڈ کے خلاف نینی تال ہائی کورٹ میں ایک درخواست داخل کی ہے جس میں اترکھنڈ میں لائے گئے یکساں سیول کوڈ کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہا گیا کہ یہ قانون ملک کے آئین اور جمہوریت کے خلاف ہے۔ جمعیۃ العلماء ہند کا یہ تاثر ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے وجود کا نہیں بلکہ ان کے حقوق کا سوال ہے۔
یہ یونیفارم سیول کوڈ دستوری طورپر مسلمانوں کو دیئے گئے حقوق کو چھینتا ہے لہٰذا یہ غیر دستوری بھی ہے۔ جہاں تک وقف بل کا تعلق ہے یہ دراصل مسلمانوں کے حقوق کا قتل عام ہے او ربی جے پی وقف املاک پر دست درازی کرتی ہے تو گویا وہ آگ سے کھیل رہی ہے۔ بی جے پی میں جو سمجھ دار لوگ ہیں ان کو آگے آنا ہوگا اور احمقوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ اپنی عوام کو اپنا دشمن بنا لینا کتنا معیوب اور خطرناک ہے۔
مسلمانوں نے نام نہاد NRCاور CAA کے خلاف جس انداز میں احتجاج کیا تھا آج پھر وہی انداز اور وہی جذبہ کو روبہ عمل لانے کی ضرورت ہے تاکہ بی جے پی کو گھٹنوں پر ٹکایا جاسکے۔ اگر چندرابابو نائیڈو مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کی اس حرکت کو نہیں روک پاتے ہیں تو ان کا مستقبل بھی تاریک ہوجائے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ بابو اور نتیش کمار دونوں مل کر ایک قابل قبول فارمولا نکالیں گے تاکہ مسلمانوں کی پہچان کو مٹایا نہ جاسکے۔ لوگوں کو بڑے پیمانے پر احتجاج کے ساتھ ساتھ خدائے برتر سے بھی یہ التجا کرنی پڑے گی کہ
جب کے تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰