مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مہدی افراز نامی ایک ثقافتی فعال کارکن نے ایک نوٹ میں لکھا کہ مزاحمت کی دنیا میں قائدین کی تدفین طاقت پیدا کرنے کا سب سے دیرپا ذریعہ ہے اور یہ مستقبل میں تحریک کی سمت متعین کرنے اور سماجی سرمائے کو ظاہر کرنے کا سب سے منفرد نمونہ ہے، کیونکہ کسی عوامی ریفرنڈم میں اس قدر طاقت اور شفافیت نہیں پائی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ سید مقاومت کے جسد خاکی کو ایران میں دفن نہیں کیا جائے گا، کیونکہ سید کا لبنانی ہونا ان کے تاریخی مشن کی قطعی تصدیق کرتا ہے۔ سید کی پوری شناخت اسلامی انقلاب کی ثقافت کی ان نقاط میں ترقی تھی جہاں تک ایران کے اسلامی تحریک کو رسائی حاصل نہیں تھی۔
ایرانی جغرافیہ سے مزاحمت کے تصور کو عرب اور سنی دنیا میں پھیلانا شہید کا سب سے اہم منصوبہ تھا جسے انہوں نے نہایت جانفشانی سے انجام دیا۔
اس نقطہ نظر سے سید کی ایران کے بجائے لبنان میں تدفین مستقبل کے تعلقات کی خاکہ سازی میں ایک اہم کامیابی ہوگی۔ ہمارے لیے، سید حسن صرف لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل، یا مزاحمت کے ترجمان، یا اسرائیل کے خاتمے کے منصوبے کے فیلڈ کمانڈر نہیں تھے۔ وہ ایک جاندار اور پرکشش انقلابی شخصیت تھے جو امام خمینی کے مکتب مزاحمت کو بخوبی پروان چڑھانے اور دنیا کی ظالم ترین رژیم کے خلاف استقامت کی عالمی تحریک کے ہراول دستہ اور بے نظیر رہنما کا کردار رکھتے تھے۔