مہر خبررساں ایجنسی، لیاقت بلوچ (نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان): ایران بھر میں دھہ فجر کی تقریبات عروج پر ہیں، یہ عشرہ ایران کی تاریخ کے اہم ترین ادوار میں سے ایک ہے، جو یکم فروری 1979ء کو امام خمینیؒ کی شاندار واپسی سے 11 فروری کو اسلامی انقلاب کے اعلان پر ختم ہوتا ہے۔ ہم پوری ایرانی قوم اور قیادت کو عظیم انقلاب اسلامی ایران کی 46 ویں سالگرہ کے موقع پر دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلابی عوام نے بانی انقلابِ اسلامی آیت اللہ روح اللہ خمینی ؒکی دانشمندانہ قیادت میں رضا شاہ پہلوی کی سیکولر اور امریکی حمایت یافتہ رِجیم کیخلاف آواز اٹھائی۔ رضا شاہ پہلوی کی حکومت نے ایرانی معاشرے میں بہت سے مصائب، معاشی خلاء اور عدم مساوات کو جنم دیا تھا اور اس کی خفیہ پولیس (ساواک) نے ایرانی نوجوانوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا، اس لیے نچلے طبقے، علماء، تاجر برادری اور طلباء میں بڑے پیمانے پر سیکولر حکومت کیخلاف بے اطمینانی پھیل گئی، جس کے نتیجے میں 1978ء میں امام خمینی کی حمایت میں اضافہ ہوا، جو پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
انقلابِ اسلامی ایران کے بانی امام خمینیؒ مرجع تقلید ہونے کیساتھ اعلیٰ پائے کے سیاستدان بھی تھے۔ امام خمینیؒ نے 14 سال جلاوطنی میں گزارے، جس میں سے زیادہ تر عرصہ عراق میں گزارا۔ ان کو شروع میں 1964ء میں ایران سے ترکی جلاوطن کیا گیا، جہاں وہ برسا شہر میں تقریباً ایک سال تک مقیم رہے۔ 1965ء میں امام خمینی کو عراق کے مقدس شہر نجف اشرف جانے کی اجازت دی گئی۔ جہاں وہ طویل عرصے تک جلا وطن رہے۔ بعد ازاں عراقی حکومت پر مغربی دباؤ کے باعث اُنہیں وہاں سے نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اور انہوں نے فرانس کے دارالحکومت پیرس کے نواحی علاقے نوفل لوشاتو کا رخ کیا۔ نجف اشرف میں قیام کے دوران انہوں ایرانی عوام کے نام دروس کے ذریعے انقلابِ اسلامی کے حوالے سے شعور اُجاگر کرتے ہوئے اسلامی حکومت کے خدوخال سے متعلق ایرانی عوام کے درمیان آگاہی پیدا کی۔
انہوں نے اپنے دروس کے دوران شاہ ایران کی حکومت پر شدید تنقید کی اور اُنہیں یہودی ایجنٹ اور امریکی پٹھو قرار دیا۔ رضا شاہی حکومت کیخلاف مظاہرے بڑھنے لگے اور امام خمینیؒ کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جلاوطنی کے آخری ایام میں امام خمینیؒ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور اہم شخصیات کے ذریعے اپنے پیغامات ایرانی عوام کے نام برابر پہنچاتے رہے۔ اس دوران مختلف ایرانی رہنماؤں کا امام خمینیؒ کیساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ 1979ء میں جب ایرانی عوام اسلامی انقلابی تحریک کے سلسلے میں جابر شہنشاہ رضا شاہ پہلوی حکومت کے خلاف مختلف شہروں، علاقوں، گلی کوچوں اور سڑکوں پر سراپا احتجاج تھے تو شدید عوامی دباؤ اور حکومت مخالف مسلسل مظاہروں کے نتیجے میں 16 جنوری 1979ء کو شاہ ایران نے ملک سے فرار کا راستہ اختیار کیا اور فرانس چلے گئے، جس کے دو ہفتے بعد امام خمینیؒ نے ایران واپس آنے کا اعلان کر دیا۔
امام خمینیؒ کی واپسی کا اعلان ہوتے ہی اُس وقت کے وزیراعظم شاپور بختیار نے ملک کے ہوائی اڈے بند کرنے کا حکم دیدیا۔ اس حکم کیخلاف بڑے پیمانے پر احتجاج اور مظاہرے ہوئے، جس میں متعدد افراد شہید ہوگئے۔ احتجاج کے نتیجے میں 29 جنوری کو ہوائی اڈے کھولنے کا حکمنامہ جاری ہوا۔ بالآخر یکم فروری 1979ء کو آیت اللہ خمینیؒ اسلامی انقلاب کے بانی کی حیثیت سے 14 سال تک ملک بدری اور عراق و فرانس میں جلاوطنی کے بعد وطن واپس لوٹے اور ایران کے انقلابی عوام نے لاکھوں کی تعداد میں جمع ہوکر اپنے عظیم انقلابی قائد کا پرتپاک استقبال کیا۔ امام خمینیؒ کی آمد نے حکومت کیخلاف جاری احتجاج میں شدت پیدا کر دی۔ 8 فروری کو فضائیہ کے اعلیٰ افسران اور اہلکاروں نے امام خمینیؒ کے پاس اپنی وفاداری کا اعلان کر دیا۔ 11 فروری کو مسلح افواج کے اعلیٰ افسران نے امام خمینیؒ کے گھر پر حاضری دے کر بانی انقلاب اسلامی کیساتھ یکجہتی اور ان کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے استعفے پیش کئے۔ مسلح افواج کے اس تاریخ ساز فیصلے کے بعد حکومتی ادارے معطل ہوگئے اور 11 فروری 1979ء کو اسلامی انقلاب کی باضابطہ کامیابی کا اعلان ہوگیا۔
یوں ایران میں اسلامی جمہوریہ کی حکومت کے قیام کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا۔ حالات قابو سے باہر ہونے کے بعد شاپور بختیار بھی فرانس فرار ہوگئے اور اس طرح ایران میں ہزاروں سال سے قائم پہلوی شہنشاہی حکومت کا خاتمہ ہوکر اسلامی جمہوری حکومت کا سورج طلوع ہوا۔ امام خمینیؒ نے عوام سے پُرامن رہنے اور امن و امان کو برقرار رکھنے کا حکم دیا، حالات معمول پر آتے چلے گئے اور یوں طویل جدوجہد کے بعد عظیم ایرانی عوام کا ملک میں اسلامی انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ اِسی مناسبت سے ایرانی عوام ہر سال اسلامی انقلاب کی سالگرہ کا عشرہ (یکم فروری تا 11فروری) پورے جوش و جذبے کیساتھ مناتے ہیں، جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کروڑوں افراد ملک بھر میں سڑکوں اور شاہراہوں پر نکل آتے ہیں اور انقلاب کی سالگرہ پر خوشی مناتے ہیں۔ اس موقع کی مناسبت سے منعقدہ تقریبات میں عوام کیساتھ ساتھ ایرانی قیادت، حکومت اور اپوزیشن اور فوجی و سول حکام بھی بھرپور تیاری کیساتھ شرکت کرکے انقلاب اسلامی کیساتھ اپنی وفاداری اور بانی انقلاب کے ساتھ تجدید عہد کرتے ہیں۔
اس سلسلے کی سب سے بڑی تقریب 11 فروری کو تہران کے آزادی سکوائر پر منعقد ہوتی ہے۔ انقلاب کے بعد ایران مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام کا ایک اہم ملک بن گیا، جبکہ اسلامی انقلاب امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے مفادات کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن چکا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اسلامی انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے ایران میں انقلاب مخالف گروہوں کی حمایت کرتے ہوئے انقلاب سے منسلک اعلیٰ شخصیات پر قاتلانہ حملے شروع کروا دیئے، ملک دشمن عناصر نے اس دوران دہشتگردی کی متعدد کارروائیاں کیں۔ اس کے علاوہ عراق کی حکمران جماعت ”بعث” پارٹی بالخصوص عراقی صدر صدام حسین کو ایران پر حملے کیلئے مشتعل کرکے اس کی بھرپور حمایت بھی کی گئی۔ دشمنوں کا خیال تھا کہ اسلامی انقلاب کمزور ہوگیا ہے، جس کے بعد صدام حسین کی جارحیت سے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کا تختہ پلٹ جائے گا، تاہم آٹھ سال تک مسلط کردہ ایران، عراق جنگ کے دوران ایرانی قوم اپنی سرزمین کے ایک انچ سے بھی پیچھے نہیں ہٹی، جس کے بعد اقوام متحدہ کی قرارداد 598 کے ذریعے اس جنگ کا خاتمہ کر دیا گیا۔
اس کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک بالخصوص ناجائز صہیونی ریاست نے اسلامی جمہوریہ ایران کو غیرمستحکم کرنے کیلئے معاشی اور نفسیاتی جنگ کا آغاز کرتے ہوئے ایران کے سائنسی، تعلیمی اور سیاسی شخصیات کو دہشتگردی کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ جنرل قاسم سلیمانی عراق میں امریکی دہشت گردی کا نشانہ بنے، جبکہ متعدد ایرانی سائنسدانوں اور دیگر ممتاز شخصیات نے صیہونی اسرائیلی دہشتگردی کے نتیجے میں جامِ شہادت نوش کیا۔ امریکہ نے اسلامی انقلاب کو ناکام بنانے کیلئے ظالمانہ پابندیوں کو سہارا لیا۔ 46 برس قبل ایران میں امریکی حمایت یافتہ رضا شاہ پہلوی کا تختہ اُلٹ دیئے جانے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کو اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک کی طرف سے سخت اقتصادی اور دفاعی پابندیوں سمیت دہشت گردانہ کارروائیوں کا سامنا ہے۔ تاہم اِن تمام تر غیر انسانی اور متعصبانہ پابندیوں کے باوجود جمہوریہ اسلامی ایران کی انقلابی عوام اپنے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی مدبرانہ اور حکیمانہ قیادت کی بدولت گذشتہ 46 سالوں سے پوری ثابت قدمی کیساتھ تعمیر و ترقی کے سفر پر گامزن ہے۔
شدید عالمی پابندیوں کے باوجود انقلابِ اسلامی کی پانچویں دہائی میں داخل ہوکر مختلف سائنسی، تکنیکی، صنعتی، دفاعی اور دیگر شعبوں میں ایک تناور درخت بن چکا ہے، جس پر طاقت سے حاوی ہونے کی تمام سامراجی سازشیں ناکام ہوچکی ہیں۔ ایران کے بیلسٹک میزائلوں اور ایرانی ساختہ ڈرونز نے اسرائیلی آئرن ڈوم اور جدید ترین امریکی دفاعی نظام کی موجودگی میں اسرائیل کے اندر اہداف کو کامیابی کیساتھ نشانہ بنا کر ناجائز صیہونی رجیم کی بربادی کا آغاز کر دیا ہے۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی موجودہ حکومت اسلامی دُنیا بالخصوص پڑوسی ممالک کیساتھ گہرے دوستانہ روابط پر مبنی اپنی متوازن خارجہ پالیسی، متحرک سفارتکاری اور مثبت تبدیلیوں کی بدولت آگے بڑھے گی اور اُمتِ مسلمہ کے اندر اتحاد و اتفاق کے فروغ پر مبنی مقاصد اور مفادات کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے نہ صرف خطے کی سیاسی تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا بلکہ ایک ایسے راستے کا آغاز کر دیا ہے، جس کا خاتمہ یقینی طور پر استکباری طاقتوں کی تباہی پر ہوگا۔
آج انقلابِ اسلامی ایران عالمی استکبار کیخلاف مظلوم اور کمزور اقوام کی اُمید بن گئی ہے۔ اس عظیم انقلاب نے دنیائے کفر و استکبار کے ایوانوں میں بھونچال برپا کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں آج غزہ فلسطین کے مجاہدین کی مزاحمت نے امریکہ اور اس کے بغل بچہ اسرائیل کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کر دیا ہے۔ شہید ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے امریکہ و اسرائیل کی دہشت گردانہ کارروائیوں کیخلاف بھرپور قائدانہ کردار ادا کیا۔ گذشتہ سال ایران میں ہیلی کاپٹر فضائی حادثہ کے نتیجے میں دیگر اہم رہنماؤں سمیت اُن کی شہادت ہوئی۔ جس کے بعد ایران میں عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ساتھ ہی دستور کے مطابق دی گئی مدت کے دوران نئے ایرانی صدر کے انتخاب کا اعلان کیا۔ ایرانی عوام نے مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال کے تناظر میں تمام تر مشکلات کے باوجود آپس میں اتحاد و اتفاق کی فضاء کو قائم رکھا، انتخابات ہوئے اور ڈاکٹر مسعود پزشکیان نئے ایرانی صدر منتخب کرلیے گئے، جو اِس وقت پوری جرات اور تندہی کیساتھ اپنے فرائضِ منصبی سرانجام دے رہے ہیں۔
ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ملک کی پیٹرولیم برآمدات کو صفر پر لانے کی دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ اگر امریکی صدر سمجھتے ہیں کہ ہماری معیشت تیل پر انحصار کرتی ہے تو یہ اُن کی غلط فہمی ہے، ہمارے پاس تیل کے علاوہ اور بھی بہت سارے ذرائع آمدن موجود ہیں۔ ایرانی صدر نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک طاقتور ملک ہیں اور ہمارے ذخائر اور وسائل دنیا میں غیر معمولی ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی اپنے حالیہ بیان میں پڑوسی ممالک کیساتھ مضبوط اور گہرے دوستانہ تعلقات کو ملک کی خارجہ پالیسی کی بنیادی ترجیح قرار دیا ہے۔ عراقچی نے کہا کہ ایران کی خارجہ پالیسی میں پڑوسی ممالک کیساتھ تعلقات کو بنیادی اہمیت حاصل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تہران نے سابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دور حکومت میں علاقائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کیلیے اچھی ہمسائیگی کی پالیسی کا آغاز کیا، جسے پزشکیان حکومت نے جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اچھی ہمسائیگی کی پالیسی کی بنیاد پر سعودی عرب کیساتھ ایران کے سفارتی تعلقات پہلے ہی بحال ہوچکے ہیں۔
پاکستان اور ایران کے درمیان گہرے دوستانہ روابط پر مبنی تاریخی تعلقات قائم ہیں۔ نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ ایران اور پاکستان کے عوام بھی گہرے ثقافتی، تہذیبی، اسلامی رشتوں کی بدولت آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان سفارتی، ثقافتی، مذہبی وفود کے تبادلوں کا سلسلہ ایک مسلسل عمل ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دونوں ممالک کسی بھی بین الاقوامی دباؤ کی پرواہ کیے بغیر گہرے دوستانہ ثقافتی، تہذیبی رشتوں میں منسلک ہیں۔ پاکستانی زائرین کی ایک بڑی تعداد کا ایران کے راستے عراق کربلا و نجف میں مقاماتِ مقدسہ کی زیارات کے سلسلے میں آمدورفت جاری رہتی ہے۔ اپریل 2024ء میں شہید ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے تاریخ ساز دورہ پاکستان کے موقع پر دوطرفہ تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق ہوا، جبکہ سکیورٹی، سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت دیگر اہم شعبوں میں دوطرفہ تعاون پر مبنی معاہدوں، مفاہمی یادداشتوں پر دستخط بھی ہوئے۔
دونوں برادر ملکوں نے خطے کے حالات کے تناظر میں دہشتگردی پر قابو پانے کے حوالے سے مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کرنے سے بھی اتفاق کیا۔ شہید ایرانی صدر اس سے قبل بھی پاک ایران بارڈر پر تشریف لاکر پاکستانی سائیڈ پر بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کرچکے تھے۔ شہید ایرانی صدر نے اپنے تین روزہ دورہ پاکستان کے دوران اسلام آباد اور لاہور میں مختلف سرکاری اور عوامی تقریبات میں بھی شرکت کی۔ انہوں نے لاہور میں شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے مزار پر حاضری دی اور انہیں زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا۔ شہید ایرانی صدر کیساتھ پاکستان آئے ہوئے وفد میں اُن کی اہلیہ اور شہید وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہیان، کابینہ کے دیگر ارکان اور اعلیٰ حکام بھی شامل تھے۔ حال ہی میں پاکستان اور دیگر دوست ممالک کی کوششوں کے نتیجے میں سعودی-ایران تعلقات معمول پر آگئے ہیں، جو دونوں برادر اسلامی ممالک کے تعلقات اور خطے میں مستقبل کی صف بندی کے حوالے سے نہایت مفید اور مثبت اثرات کا پیش خیمہ ثابت ہونگے۔ دُنیا بھر بالخصوص مشرقِ وسطیٰ میں امریکی-صیہونی اور مغربی گٹھ جوڑ کیخلاف مسلم ممالک سمیت روس، چین پر مبنی بلاک خطے کے مستقبل کے حوالے سے بڑی اور مثبت تبدیلیاں لانے کا باعث بنے گا۔ (ان شاء اللہ!)