غزہ جنگ بندی کو ایک مستقل اور پائیدار حل میں تبدیل ہونا چاہئے، ایرانی مندوب

مہر نیوز کے مطابق، نیویارک میں ایران کے مندوب  سعید ایروانی نے الجزائر کے زیر اہتمام سلامتی کونسل کے اجلاس “مشرق وسطیٰ کی صورت حال اور مسئلہ فلسطین” سے خطاب کرتے ہوئے غزہ میں مستقل جنگ بندی پر زور دیا۔

 ایرانی نمائندے کی تقریر کا متن درج ذیل ہے: 

بسم الله الرحمن الرحیم

 جناب صدر ہم اس اہم اجلاس کے انعقاد پر الجزائر کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
 اسلامی جمہوریہ ایران غزہ جنگ بندی معاہدے کی کامیابی پر فلسطین  بالخصوص غزہ کے جرات مند عوام اور دنیا بھر میں فلسطینی مزاحمت کے تمام حامیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہے۔ 
یہ فتح فلسطینی عوام کی بہادری اور  اتحاد کی عکاسی کرتی ہے، جنہوں نے نسل کشی اور جبری نقل مکانی سمیت بے پناہ مصائب برداشت کیے ہیں۔ 

اس تناظر میں میں درج ذیل نکات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں:

 اول، غزہ ایک گہرے انسانی بحران کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس سانحے نے عالمی برادری اور سلامتی کونسل کے دوہرے معیار، اخلاقی ناکامیوں اور بے عملی کو بے نقاب کیا۔

 اسرائیلی نسل پرست حکومت کے مظالم نہایت افسوسناک ہیں۔ خاندانوں کا مکمل صفایا کر دیا گیا ہے، ہسپتال اور سکول تباہ ہو گئے ہیں، اور اہم انفراسٹرکچر کو منہدم کر دیا گیا ہے۔ غزہ کی ناکہ بندی نے بیس لاکھ سے زیادہ لوگوں کی زندگی تباہ کر ڈالی ہے، وہ خوراک، پانی، ادویات اور بجلی سے محروم ہیں۔ یہ وحشت ناک جارحیت ناقابل تصور حد تک فلسطینیوں کی اجتماعی سزا کی بدترین مثال ہے۔

دوسرا، جنگ بندی کو ایک مستقل اور پائیدار حل میں تبدیل ہونا چاہیے، جو اسرائیلی افواج کے مکمل انخلاء، انسانی امداد کی بلا تعطل ترسیل اور غزہ کے لیے ایک مضبوط، جامع تعمیر نو کے منصوبے کا متقاضی ہے۔ سلامتی کونسل کو غزہ کی علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے ٹھوس موقف اختیار کرنا چاہیے۔ مزید برآں، بین الاقوامی برادری کو UNRWA کے مینڈیٹ کی حفاظت کو ترجیح دینی چاہیے اور فلسطینی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے متوقع، مستقل فنڈنگ ​​کو یقینی بنانا چاہیے۔ 

تیسرا، غزہ میں شہریوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام، اہم انفراسٹرکچر کی تباہی، اور پوری کمیونٹیز کی جبری نقل مکانی، نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم اسرائیل کی بدترین جارحیت کا ثبوت ہیں۔ جنگ بندی کے بعد ایسے جرائم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ صیہونی حکام کے عدالتی احتساب اور مواخذے کی ضرورت ہے، جس کے لئے یہ ضروری ہے کہ سلامتی کونسل اسرائیلی حکومت کے پروپیگنڈے اور دباو میں ہرگز نہ آئے۔
چوتھا، اسرائیلی حکومت کو لبنان کے ساتھ جنگ ​​بندی کے اپنے وعدے کا احترام کرتے ہوئے لبنان کی خودمختاری کی خلاف ورزیوں کو فوری طور پر روکنا چاہیے اور جنگ بندی کے معاہدے کے 60 دن کے بعد جنوبی لبنان سے اپنی افواج کو واپس بلانا چاہیے۔ 

اس سلسلے میں سلامتی کونسل کو جنگ بندی معاہدے پر مکمل اور درست عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس موقف اپنانا چاہیے۔ اسی طرح، شام کی گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ 1974 کے معاہدے سے دستبرداری اور اقوام متحدہ کی قرارداد 497 کی خلاف ورزی ہے۔

 خطے میں مزاحمتی تحریکیں کئی دہائیوں کے اسرائیلی قبضے، جارحیت اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کا ایک جائز اور قانونی جواب ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران بین الاقوامی قوانین کے تحت فلسطینیوں کے اپنے دفاع اور مزاحمت کے حق کی مستقل حمایت کا اعادہ کرتا ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *