پاکستان میں صحافت ایک کاروبار اورمیڈیا کرپشن کا شکار ہے، داؤ پرکیا کچھ لگا ہے ؟

[]

پاکستان میں میڈیا اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے لیکن دو دہائی قبل جنم لینے والے چینلز ابھی بھی گھٹنوں گھٹنوں چلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں اب بھی پختگی کی کمی پائی جاتی ہے۔

پاکستان میں صحافت ایک کاروبار اورمیڈیا کرپشن کا شکار ہے، داؤ پرکیا کچھ لگا ہے ؟
پاکستان میں صحافت ایک کاروبار اورمیڈیا کرپشن کا شکار ہے، داؤ پرکیا کچھ لگا ہے ؟
user

Dw

پاکستان میں نجی ملکیتی الیکٹرانک میڈیا کی داغ بیل مشرف دور میں ڈالی گئی اوراسی دورمیں یہ تیزی سے نشو ونما پاتی چلی گئی۔

ملکی میڈیا انڈسٹری تقسیم درتقسیم ہے، صحافیوں کی تنظیموں میں حالات اس سے بھی برے ہیں۔ ایسے میں ایک طرف اینکر تو بھاری مراعات پارہے ہیں مگر دوسری طرف ورکنگ کلاس صحافیوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اسی معاشی ناہمواری نے کرپشن کو فروغ دینے میں اہم کردارادا کیا۔ نواز شريف کے دوسرے دور حکومت ميں الیکٹرانک ميڈيا کے آنے کے بعد حکومت اورپرنٹ ميڈيا کے درميان فاصلے بڑھ گئے۔ ایک واضح خليج اس وقت نماياں ہوئی، جب جنرل پر ويز مشرف کے دور ميں ٹی وی چينلز کی ‘مشروم گروتھ‘ ہوئی اور پھر شام کے اوقات ميں ہر ٹی وی چينل کی اسکرين پر جھگڑوں، چيخ و پکار اور طوفان بدتميزی سے بھرپور پوليٹيکل ٹاک شوز کا آغاز ہو گيا۔

کراس میڈیا اونرشپ, شتربے مہار

پاکستان کے سب سے زیادہ طاقتور اور با اثر وفاقی سیکرٹری اطلاعات سمجھے جانے والے انورمحمود بہت سے رازوں کے امین ہیں۔ مشرف دورمیں نئے ٹی وی چینلز کے آغاز اور کراس میڈیا اونرشپ ان ہی کے دور میں ہوئی۔ سابق سیکرٹری اطلاعات انورمحمود نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صحافت میں کرپشن کا آغاز الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد نہیں بلکہ نوے کی دہائی میں پرنٹ میڈیا سے ہوچکا تھا۔

انہوں نے کہا، ’’ لفافہ اورپلاٹ کا کلچر اسی دورمیں متعارف ہوچکا تھا ، ان دنوں حسین حقانی ،سابق وزیراعظم نوازشریف کی کابینہ میں اس اسپیشل اسسٹنٹ برائے میڈیا تھے۔‘‘ انورمحمود کا کہنا ہے کہ بعد میں جنرل مشرف کے دورمیں جب وہ سیکرٹری اطلاعات تھے تو اُس وقت پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز لانے کی اجازت دی گئی۔ تاہم اس سابق اعلی بیورو کریٹ کے مطابق، ’’اس وقت کے وزیراطلاعات شیخ رشید نے میر شکیل الرحمان کے کہنے پرکراس میڈیا اونرشپ کی اجازت دے دی، یوں ٹیلی ویژن چینلز کی مشروم گروتھ شروع ہوگئی۔ اسی وجہ سے ناتجربہ کاراور کم تعلیم یافتہ لوگوں نے الیکٹرانک میڈیا کا رخ شروع کردیا، دیگر کاروباری بھی صحافت کے میدان میں کود گئے، ان کے اپنے مقاصد تھے اور پھرصحافت گم ہوگئی کمرشل ازم زیادہ ہوگیا ۔‘‘ اس کے ساتھ پھرکرپشن کوکوئی نہیں روک سکتا تھا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

اینکرزاورمیڈیا ہاؤسز کے لیے کنگ میکر کا امیج

میڈیا کے ابتدائی دورسے ہی کچھ اينکرز کو فوجی اسٹبلشمنٹ نے گود لے ليا، باقی جو بچے انہيں مسلم ليگ ن، پيپلز پارٹی، اور تحريک انصاف نے اپنے اپنے مفاد ميں جمہوريت کے نام پر خوب استعمال کيا، يوں ٹی وی اينکرز کو يہ گمان ہوگيا کہ وہ حکومتيں گرانے اور بنانے ميں اہم کر دار ادا کر سکتے ہيں۔ اس سوچ کی بنيادی وجہ يہ تھی کہ ان اينکرز ميں صحافی کم اورحادثاتی طور پر الکٹرانک ميڈيا سے وابستہ ہونے والوں ميں، ڈاکٹرز، انجينيئر، نرسز،مڈوائف، گيسٹ ريليشن آفيسرز، ايئرہوسٹس ، بيو ٹيشن ، سابق سفارتکار، سب اينکر پرسن بن کر ميڈيا انڈسٹری میں کود پڑے، ٹی وی ديکھنے والے اس سب کے باوجود خاصے سمجھدار ہيں انہيں تمام بشری خاميوں کے ساتھ پرنٹ ميڈيا سے آنے والے صحافيوں اور پيرا شوٹرز(چھاتہ بردار) صحافيوں کا فرق معلوم ہے۔ حق گوئی اوربے باکی کی توقع مناسب نہیں،،

صحافتی معیارمیں گراوٹ اسباب اورمحرکات

سینیئرصحافی اورتجزیہ کارمظہرعباس کا کہنا ہے کہ ماضی کی نسبت اب صحافیوں اورصحافت کو قدرکی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا،پھرصحافیوں کا معیاربھی وقت کے ساتھ گراوٹ کا شکارہے۔ اخبارات میں ایڈیٹرکا ادارہ ختم ہوگیا ہے مالکان خود ایڈیٹربنے ہوئے ہیں یا کمزورشخصیت کو ایڈیٹربناکرکام چلارہے ہیں۔ ساٹھ یا ستر کے عشرے میں صحافت کا جو معیارتھا وہ آج نظرنہیں آتا۔ میڈیا میں کرپشن بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہےاورلوگ اس پر اعتبارکرنے کو تیارنہیں۔ مظہر عباس نے کہا کہ ٹیلی ویژن چینلز کی مشروم گروتھ کی وجہ سے کئی ایسے لوگ صحافت کے شعبے میں آگئے، جن کا پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کا پس منظرنہیں تھا ۔ صرف اپنے مقاصد،طاقت کے حصول اوراعلیٰ سیاسی حلقوں میں اثرورسوخ قائم کرنے کے لے میڈیا ہاؤسزقائم کئے ،نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

میڈیا کا گلیمراوررنگینیاں

کراچی میں قائم ایک معروف درسگاہ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریش (آئی بی اے) کے زیر اہتمام سینٹرآف ایکسیلینس ان جرنلزم کی ڈائریکٹرعنبرشمسی کہتی ہیں کہ ٹیلی ویژن جرنلزم میں گلیمر عوامی سطح پرپذیرائی کی وجہ سے بھی کچھ خرابیاں پیداہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’عام آدمی ٹیلی ویژن اینکرزکوصحافی مانتا ہے، اس سے متاثرہوتا ہے ،آپ کسی نوجوان سے پوچھیں وہ کیا بننا چاہتاہے؟ اسکا جواب ہوگا کہ اینکر، وہ ایڈیٹر،رپورٹریا پروڈیوسربننے میں دلچسپی نہیں رکھتاوجہ اس شعبے میں گلیمرہے۔‘‘

عنبر کے بقول اب تو سوشل میڈیا پربہت سے لوگ صحافی کے روپ میں جلوہ گرہورہے ہیں جس کی وجہ سے بھی میڈیا کی ساکھ خراب ہوئی ہے اورکرپشن کا پہلوبھی نمایاں ہورہا ہے پھراسٹیبلشمنٹ اپنے مقاصد کے لئے ٹیلی ویژن چینل پراپنے پسندیدہ لوگوں کے ذریعے رائے عامہ ہموارکرنے کے لیے اپنے خرچ پرپروگرام کراتے ہیں۔

صحافت میں کرپشن کے تانے بانے

کرپشن کے حوالے سے زیادہ باریک بینی سے بات کریں تو کوئی بھی مبرا نہیں ۔ آب پیٹ پر پتھر باندھ کر اخبار چینل یا سوشل میڈیا سیٹ اپ رواں نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ سیاسی قائدین اور اداروں کے سربراہان کو ادراک کرنا چاہیے کہ سیاست اور صحافت میں normalcy سے سب کا بھلا ہے۔

معروف اینکرپرسن عاصمہ شیرازی کے خیال میں الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد میڈیا میں کرپشن میں اضافہ نہیں ہوابلکہ پرنٹ کے زمانے سے یہ سلسلہ جاری ہے ،ڈوئچے ویلے سے گفتگوکرتے ہوئے عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک میڈیا کے آنے پرپرنٹ میڈیا میں کام کرنے والوں بہترمواقع میسرآئے،صحافی معاشی طور پرمستحکم ہوئے کیونکہ پرنٹ میڈیا کی نسبت الیکٹرانک میڈیا میں معاوضہ بہترتھے۔ لہٰذا ان کے خیال میں میڈیا میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی،انکاکہنا ہے کہ میڈی اکے کچھ لوگوں پرالزام ہے کہ وہ مبینہ طورپرمالی کرپشن میں ملوث ہیں مگر یہ محض الزام ہے، ثبوت نہیں ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کی میڈیا میں مداخلت پرعاصمہ شیرازی نے کہا کہ مداخلت ضرورہے کیونکہ یہ عناصربعض غیرصحافی شخصیات کو ٹیلی ویژن اسکرین پربٹھاکرمالی فوائد پہنچاکرمیڈیا کی طاقت کا بے جااستعمال کرتے ہیں،جس کی وجہ سے جہاں میڈیا کامعیارکم ہواوہیں عام آدمی میڈیا پراعتماد نہیں کرتااوریہ ایک بڑانقصان ہے۔

میڈیا میں بڑھتی ہوئی مداخلت

تجزیہ نگاراوراینکرپرسن منیزہ جہانگیرنے ڈوئچے ویلے سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی میڈیا اداروں میں مداخلت بڑھتی جارہی ہے ۔ اب یہ عناصر صحافتی تنظیموں میں بھی اپنا اثرونفوذاستعمال کررہے ہیں، جوصحافیوں میں خرابی اورکرپشن کوفروغ دے رہا ہے۔منیزہ جہانگیر کا کہنا تھاکہ آپ صرف ورکنگ جرنلسٹ (عامل صحافیوں) میں کرپشن کو نہ دیکھییں،چینل کے مالکان کی کرپشن پرکوئی بات نہیں کرنا، زیادہ ترمالکان بلیک منی کو وائٹ کرنے کیلئے نیوزچینل خریدرہے ہیں ۔ان مالکان میں پراپرٹی ڈیلرززیادہ ہیں۔ ٹاک شوزکے اینکرزکے سیاست میں بڑھتے ہوئے اثرونفوذ پرپوچھے گئے سوال پرانکا کہنا تھاکہ چینل مالکان اورفوج کو خوش کرنے والے اینکرزکا گٹھ جوڑہے،وہی صحافی اور اینکرز نمایاں مقام پاتے ہیں جو اس نیٹ ورک میں کام کرتے ہیں۔

عنبرشمسی کا کہناہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ اورمداخلت سے صحافت کا معیاراورکارکردگی دونوں متاثر ہوئے ہیں جب غیرمعیاری اورغیرتربیت یافتہ لوگ صحافی یا اینکرپرسن کا روپ دھارکرپروگرام کریں گے اورانہیں عوامی کو سچح پرپذیرائی ملے گی تو خرابی پیداہونا ایک فطری عمل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *