لے گیا چھین کے کون آج تیرا صبر و قرار

جناب شجاعت علی۔ریٹائرڈ آئی آئی ایس

lحضور نظام ڈاکٹر امبیڈکر کی عظمت کے معترف

lتعلیم کیلئے اسکالرشپس اور تعلیمی اداوں کیلئے زمین کی حوالگی

lعثمانیہ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی عطا کی گئی

25نومبر 1949 آئین ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا کہ’’ آئین کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، خود بخود لاگو نہیں ہوتا۔ اس پر عمل کروانا ہوتا ہے۔ ایسے میں آئین پر عمل درآمد کرنے کی ذمہ داری اُن لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو حکومت چلاتے ہیں۔یعنی یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ آئین کو کتنی دیانتداری اور مؤثر ڈھنگ سے نافذ کرتے ہیں‘‘۔آج سارے ملک میں دستور کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ دستور کی عظمت کو پامال کیا جارہا ہے اور بابائے دستور کے احسان کو ٹھکرایا جارہا ہے۔ اس سلسلہ کو اگر فوراً نہ روکا جائے گا تو ملک کی سا لمیت خطرہ میں پڑ جائے گی۔ اس وقت مرکز میں ایک ایسی سرکار کارگزار ہے جسے نہ صرف دستور سے بلکہ بابا صاحب امبیڈکر سے بھی نفرت ہے کیونکہ وہ ایک دلت تھے۔ سارے ملک میں دستور کے تئیں عوام کو شعور میں لانے کی ضرورت ہے بالخصوص مسلمان دستورِ ہند کی روح سے ناواقف ہیں جس کی وجہ سے انہیں بہت سارے شعبوں میں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ امبیڈکر کی عظمت کا کئی راجاؤں اور مہاراجاؤں نے اعتراف کیا ہے خاص طورپر حضور نظام نے ان کی قابلیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے انہیں اسکالرشپس سے نوازا اور مہاراشٹرا میں تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے گرانقدر مالیہ فراہم کیا اور کئی ایکر اراضی بھی انہیں عطا کی۔

 

1913 میں انہیں سایا جی راؤ گائیکواڈ نے بھی اسکالرشپ عطا کی۔ ان لوگوں کے اس عمل سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ انہوں نے امبیڈکر کی قوم کے لئے کی جانے والی خدمات کو بھانپ لیا تھا اور ان کی ہمت افزائی کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ یہ بات خو ش آئند ہے کہ کانگریس کے شعبہ اقلیت نے ملک کے کونے کونے میں دستور کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے جلسوں کا اہتمام کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی ابتدا حیدرآباد شہر سے ہورہی ہے۔ آج یعنی 5؍جنوری بوقت 6 بجے شام ایک بہت بڑا جلسہ عام قلی قطب شاہ اسٹیڈیم میں منعقد ہورہا ہے جس کے داعی خواجہ بلال ہیں ۔ اس جلسہ کو مائناریٹی ڈپارٹمنٹ کے صدرنشین عمران پرتاپ گڑھی کے علاوہ دیگر قائدین مخاطب کریں گے۔ اس طرح کے جلسے اگر تلنگانہ کے اضلاع میں بھی منعقد ہوں تو اس کے اچھے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کا ایک مشاورتی اجتماع مشتاق ملک نے بھی کیا تھا جس میں مختلف اکابرین نے شرکت کی۔ ملک کو ہمیشہ بابا صاحب امبیڈکر کا ممنون ہونا چاہئے کہ جنہوں نے

 

ایک بہترین دستور دے کر اس ملک کو مضبوط کیا ہے۔ حالیہ عرصہ میں دستور پر بہت سارے حملے ہوئے ہیں اب انھیں نہ صرف روکنے کی ضرورت ہے بلکہ دستور کے دشمنوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ناگزیر ہوگیا ہے۔ عام دلت سے لے کر دستور ہند کے معمار بننے تک ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی جدوجہد سے بھرپور زندگی نے ملک کو ایک نئی روشنی دی ہے۔ مدھیہ پردیش کے مہو میں پیدا ہوئے امبیڈکر اپنے والدین کے 14ویں اور آخری اولاد تھے۔ وہ بنیادی طور پر ماہر معاشیات اور ماہر تعلیم تھے۔ بابا صاحب ہندوستان میں دلت جدوجہد کے پرچم بردار بھی رہے، جنہیں ہندوستانی آئین کا معمار (Architect of the Indian Constitution) کہا جاتا ہے۔ بی آر امبیڈکر 29 اگست 1947 کو آزاد ہندوستان کے آئین کی مسودہ سازی کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ بابا بھیم راؤ کے یہ مقولے کافی مقبول ہوئے۔ ٭اگر مجھے لگا کہ آئین کا غلط استعمال ہورہا ہے، تو میں اسے سب سے پہلے جلاؤں گا۔ ٭ زندگی لمبی ہونے کے بجائے عظیم ہونی چاہیے۔ ٭اپنی قسمت کے بجائے اپنی مضبوطی پر یقین کرو۔ ٭جو انسان اپنی موت کو ہمیشہ یاد رکھتا ہے، وہ ہمیشہ اچھے کاموں میں مشغول ہوتا ہے۔ ٭دماغی ترقی انسان کے وجود کا آخری مقصد ہونا چاہیے۔ ٭ جب تک آپ سماجی آزادی حاصل نہیں کر لیتے، قانون آپ کو جو بھی آزادی دیتا ہے وہ آپ کے لیے بے ایمانی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔

 

آپ کو یاد ہوگا کہ آزادی کے بعد، 1947 میں، وہ نہرو کی پہلی کابینہ میں وزیر قانون و انصاف کے طور پر مقرر ہوئے لیکن 1951 میں، انہوں نے مسئلہ کشمیر، ہندوستان کی خارجہ پالیسی اور ہندو کوڈ بل کے حوالے سے نہرو کی پالیسی پر اپنے اختلافات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ 1952 میں کولمبیا یونیورسٹی نے ہندوستان کے آئین کے مسودے کے سلسلے میں ان کے ذریعہ کیے گئے کام کے اعتراف میں انہیں ایل ایل ڈی کی ڈگری سے نوازا۔ 1955 میں، انہوں نے لسانی ریاستوں پر خیالات کے عنوان سے اپنی کتاب شائع کی۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو 12 جنوری 1953 کو عثمانیہ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ سے نوازا گیا۔ 26؍جنوری 1950 کو دستور کو عمل میں لایا گیا اور اس دن کو یوم جمہوریہ کے طورپر ساری قوم مناتی ہے۔ قوم کے لئے ان کی غیر معمولی خدمات کے مدنظر بابا صاحب امبیڈکر کو بعد از مرگ 1990 میں ملک کے عظیم ترین اعزاز بھارت رتن سے نوازا گیا۔ آج امبیڈکر ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی جانب سے ہمیں دیا گیا ہتھیار

 

یعنی دستور ہمارے ساتھ ہے اسے صحیح ڈھنگ سے استعمال کیا جائے تو ہم کامیاب اور کامران ہوں گے۔ ملک کے حالات پر سبھی پریشان ہیں یہی وجہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر ہم سے کہہ رہے ہیں کہ

لے گیا چھین کے کون آج تیرا صبر و قرار

بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *