صدر نے سزائے موت کو 60 سال قید میں تبدیل کیا تھا، اب سپریم کورٹ نے رہائی کا حکم دیا، اسکول کا ریکارڈ کام آیا

سپریم کورٹ نے 30 سال پرانے قتل کیس کے مجرم کو رہا کردیا۔ جرم کے وقت اس کی عمر صرف 14 سال تھی۔ اس سے قبل عدالتی کارروائی کے دوران اسے بالغ تصور کیا جاتا تھا۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div><div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

اپنی نوعیت کے ایک انوکھے کیس میں سپریم کورٹ نے اپنے پہلے فیصلے اور صدر کے حکم سے بالاتر ہو کر ایک مجرم کو رہا کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے 30 سال پرانے تہرے قتل کیس میں مجرم کی رہائی کا حکم یہ سامنے آنے کے بعد دیا ہے کہ جرم کے وقت مجرم کی عمر صرف 14 سال تھی۔

15 نومبر 1994 کو دہرادون میں ایک سابق فوجی افسر اور ان کے خاندان کے دو افراد کو قتل کر دیا گیاتھا۔ اس معاملے میں ان کے نوکر اوم پرکاش ہر عدالت میں مجرم ثابت ہوا۔ جرم کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ہر عدالت نے اسے سزائے موت سنائی۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے اس کی نظرثانی اور کیوریٹو پٹیشن کو مسترد کر دیا تھا۔ آخرکار اسے 2012 میں ریلیف مل گیا۔ وہ بھی صرف اتنا کہ صدر نے رحم کی درخواست پر حکم جاری کرتے ہوئے اس کی سزا کو 60 سال قید میں تبدیل کر دیا۔

اوم پرکاش نے ہر عدالت میں استدعا کی تھی کہ واقعہ کے وقت وہ نابالغ تھا۔ لیکن واقعہ کے وقت اس کا بینک اکاؤنٹ ہونا اس کے خلاف ثبوت بن گیا۔ فرض کیا گیا کہ وہ بالغ ہے، تبھی اس کا بینک اکاؤنٹ کھولا گیا۔ 25 سال سے زیادہ جیل میں گزارنے کے بعد اب وہ نیشنل لاء یونیورسٹی، دہلی کے پروجیکٹ 39A کی مدد سے جیل سے باہر آ سکے گا۔ پروجیکٹ 39A کے اراکین، جو سزائے موت کے مجرموں کو قانونی مدد فراہم کرتا ہے، نے مغربی بنگال کے جلپائی گوڑی سے اوم پرکاش کے اسکول کے ریکارڈ کو بازیافت کیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جرم کے وقت اس کی عمر صرف 14 سال تھی۔

اس معلومات کے سامنے آنے کے بعد دیئے گئے فیصلے میں سپریم کورٹ کے جسٹس ایم ایم سندریش اور اروند کمار نے تسلیم کیا ہے کہ اوم پرکاش کے ساتھ کچھ بہت غلط ہوا ہے۔ جووینائل جسٹس ایکٹ کے تحت، اسے اصلاحی گھر میں زیادہ سے زیادہ 3 سال کی سزا سنائی جا سکتی تھی۔ اس کے بعد وہ معاشرے میں شامل ہو کر عام زندگی گزار سکتا تھا۔ لیکن اس کی تعلیم کی کمی اور مناسب قانونی مدد کی کمی اس میں رکاوٹ بن گئی۔ اس نے 25 سال جیل میں گزارے۔ ان میں سے 11 سال ایسے تھے جن میں وہ سزائے موت کا انتظار کر رہا تھا۔

سپریم کورٹ میں آنے سے پہلے اوم پرکاش کی جانب سے اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں بھی عرضی داخل کی گئی تھی۔ اس درخواست میں ہڈیوں کے ٹیسٹ کی رپورٹ سمیت دیگر شواہد کی مدد سے اس نے کہا تھا کہ وہ واقعے کے وقت نابالغ تھا۔ لیکن ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ چونکہ یہ معاملہ صدر کی سطح پر طے پا گیا ہے، اس لیے اسے دوبارہ نہیں کھولا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مقدمے کی سماعت کے کسی بھی مرحلے پر اگر ثبوت ملتا ہے کہ ملزم نابالغ ہے تو عدالت اس کے مطابق قانونی طریقہ کار پر عمل کرے۔ (نیوز پورٹل ’اے بی پی‘ پر شائع خبر سے انپٹ لیا گیا)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *