ماہِ صفر میں نحوست کی کوئی حقیقت نہیں

[]

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

صفر المظفر ہجری کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے، جو محرم الحرام کے بعد اور ربیع الاول سے پہلے آتا ہے۔ اس مہینہ میں معمول کی ہی عبادت کی جاتی ہے، یعنی کوئی خاص عبادت اس مہینہ میں مسنون یا مستحب نہیں ہے۔ نیز یہ دیگر مہینوں کی طرح ہی ہے، یعنی خاص طور پر اس مہینہ میں آفات ومصائب نازل ہونے کا عقیدہ رکھنا غلط ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اس ماہ کو نحوست والا مہینہ سمجھا جاتا تھا، اس لیے وہ اس ماہ میں سفر کرنے سے گریز کیا کرتے تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کا غلط وفاسد عقیدہ اِن دنوں سوشل میڈیا پر ہمارے ہی دینی بھائیوں کی طرف سے شیئر کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کے جہاں بہت سے فوائد ہیں وہیں نقصانات بھی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ لوگوں کی اچھی خاصی تعداد پڑھے بغیر اور میسیج کی تحقیق کئے بغیر دوسروں کو فارورڈ کردیتی ہے۔

ان پیغامات میں بعض اوقات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی بات منسوب ہوتی ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں کبھی بھی نہیں کہی۔ حالانکہ اس پر سخت وعیدیں احادیث میں وارد ہوئی ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص میری نسبت وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے۔ (بخاری) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان مختلف الفاظ کے ساتھ حدیث کی مختلف کتابوں میں مذکور ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مرتبہ ایسا کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے۔ لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کوئی بھی بات بغیر کسی تحقیق کے ہرگز فارورڈ نہ کریں۔ اسی طرح فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بلا تحقیق بیان کرے۔ (مسلم) ایک دوسری حدیث میں آپؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری طرف منسوب کرکے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی حدیث بیان کی تو وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے۔ (مسلم)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ صفر سے متعلق اِس باطل عقیدہ کا انکار آج سے ۱۴۰۰ سال قبل ہی کردیا تھا، چنانچہ حدیث کی سب سے مستند کتاب میں وارد ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ماہ صفر میں نحوست ہونے کا عقیدہ بے حقیقت بات ہے۔ (بخاری) نحوست تو دراصل انسان کے عمل میں ہوتی ہے کہ وہ خالق کائنات کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے، باوجود یکہ وہ اپنے وجود اور بقا کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کا محتاج ہے۔ اور ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ وہ بھی موت کا مزہ چکھ لے گا اور اس کے بعد انسان کو اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب اللہ تعالیٰ کو دینا ہوگا۔

انسان کی زندگی کا جو وقت بھی اللہ کی ناراضگی میں گزرا دراصل وہ منحوس ہے نہ کہ کوئی مہینہ یا دن۔ لہٰذا جو انسان ماہ صفر میں اچھے کام کرے گا تو یہی مہینہ اس کے لیے خیر وبرکت اور کامیابی کا سبب بنے گا اورانسان جن اوقات اور مہینوں میں بھی برے کام کرے گا زندگی کے وہ لمحات اُس کے لیے منحوس ہوں گے۔ مثلاً نماز فجر کے وقت کچھ لوگ بیدار ہوکر نماز پڑھتے ہیں اور کچھ لوگ بلاعذر بستر پر پڑے رہتے ہیں اور نماز نہیں پڑھتے، تو ایک ہی وقت کچھ لوگوں کے لیے برکت اور کامیابی کا ذریعہ بنا، اور دوسروں کے لیے نحوست۔ معلوم ہوا کہ کسی وقت یا مہینہ میں نحوست نہیں ہوتی بلکہ ہمارے عمل میں برکت یا نحوست ہوتی ہے۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: آدم کی اولاد زمانہ کو گالی دیتی ہے، اور زمانہ کو برا بھلا کہتی ہے، حالانکہ زمانہ تو میں ہوں، رات دن کی گردش میرے ہاتھ میں ہے۔ (بخاری) یعنی بعض لوگ حوادث زمانہ سے متاثر ہوکر زمانے کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں، حالانکہ زمانہ کوئی کام نہیں کرتا، بلکہ زمانہ میں جو واقعات اور حوادث پیش آتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کے حکم سے ہوتے ہیں۔

غرضیکہ قرآن کریم کی کسی بھی آیت یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی فرمان میں یہ مذکور نہیں ہے کہ ماہ صفر میں نحوست ہے یا اس مہینہ میں مصیبتیں اور آفتیں نازل ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ صفر کا مہینہ دیگر مہینوں کی طرح ہے، یعنی اس مہینہ میں کوئی نحوست نہیں ہے۔ سیرت نبوی کے متعدد واقعات، بعض صحابیات کی شادیاں اور متعدد صحابیوں کا قبول اسلام بھی اسی ماہ میں ہوا ہے۔ اور عقل سے بھی سوچیں کہ مہینہ یا زمانہ یا وقت کیسے اور کیوں منحوس ہوسکتا ہے؟ بلکہ ماہ صفر میں تو نحوست کا شبہ بھی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کا نام صفر المظفر ہے جس کے معنی ہی ہیں ’’کامیابی کا مہینہ‘‘۔

جس مہینہ کے نام میں ہی خیر اور کامیابی کے معنی پوشیدہ ہوں وہ کیسے نحوست کا مہینہ ہوسکتا ہے؟ بعض حضرات یہ سمجھ کر کہ صفر کے ابتدائی تیرہ دنوں میں آپؐ بیمار ہوئے تھے، شادی وغیرہ نہیں کرتے ہیں، بالکل غلط ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں اس نوعیت کی کوئی بھی تعلیم موجود نہیں ہے، نیز تحقیقی بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صفر کے ابتدائی دنوں میں نہیں بلکہ ماہ صفر کے آخری ایام یا ربیع الاول کے ابتدائی ایام میں بیمار ہوئے تھے۔ اور ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو آپؐ کی وفات ہوئی تھی۔

بعض ناواقف لوگ ماہ صفر کے آخری بدھ کو خوشی کی تقریب مناتے ہیں اور مٹھائی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں، جبکہ اس کی شریعت اسلامیہ میں کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ لوگوں میں یہ بات غلط مشہور ہوگئی ہے کہ اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحت یاب ہوئے تھے، حالانکہ یہ بالکل صحیح نہیں ہے، بلکہ بعض روایات میں اس دن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بڑھ جانے کا تذکرہ ملتا ہے۔ لہٰذا ماہ صفر کا آخری بدھ مسلمانوں کے لیے خوشی کا دن ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہود ونصاریٰ خوش ہوسکتے ہیں، ممکن ہے کہ انہیں کی طرف سے یہ بات پھیلائی گئی ہو۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کی طرح برصغیر کے تمام مکاتب فکر کا بھی یہی موقف ہے کہ صفر کے مہینہ میں کوئی نحوست نہیں ہے، اس میں شادی وغیرہ بالکل کی جاسکتی ہے۔ اور ماہ صفر کے آخری بدھ میں خوشی کی کوئی تقریب منانا دین نہیں بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

اِن دِنوں سوشل میڈیا پر کسی بھی پیغام کو فارورڈ کرنے کا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے، چاہے ہم اس پیغام کو پڑھنے کی تکلیف گوارہ کریں یا نہ کریں، اور اسی طرح اس کی تحقیق کرنے کی ضرورت بھی سمجھیں یا نہ سمجھیں کہ میسج صحیح معلومات پر مشتمل ہے یا جھوٹ کے پلندوں پر۔ البتہ اس کو فارورڈ کرنے میں انتہائی عجلت سے کام لیا جاتا ہے۔ جبکہ میسج فارورڈکرنے کے لئے نہیں بلکہ اصل میں پڑھنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ غلط معلومات پر مشتمل میسج کو فارورڈ کرنا ہمارے لئے جائز نہیں ہے، خاص کر اگر وہ پیغام دینی معلومات پر مشتمل ہو کیونکہ اس سے غلط معلومات دوسروں تک پہونچے گی۔

مثال کے طور پر کبھی کبھی سوشل میڈیا کے ذریعہ پیغام پہنچتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ۵ نام کسی بھی ۱۱ مسلمانوں کو بھیج دیں تو بڑی سے بڑی پریشانی حل ہوجائے گی۔ اسی طرح فلاں پیغام اگر اتنے احباب کو بھیج دیں تو اس سے فلاں فلاں مسائل حل ہوجائیں گے، ورنہ مسائل اور زیادہ پیدا ہوں گے۔اسی طرح کبھی کبھی سوشل میڈیا پر میسج نظر آتا ہے کہ فلاں پیغام اتنے لوگوں کو بھیجنے پر جنت ملے گی۔ کبھی کبھی تحریر ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے سچی محبت نہ کرنے والا ہی اس میسیج کو فارورڈ نہیں کرے گا، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے پیغام کا شریعت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ عموماً جھوٹ اور فریب پر مشتمل ہوتے ہیں۔

موجودہ زمانہ میں تعلیم وتعلم اور معلومات فراہم کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا بھی استعمال کیا جارہا ہے، یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے بشرطیکہ اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔مگر بعض حضرات کچھ پیغام کی چمک دمک دیکھ کر اس کو پڑھے بغیریا تحقیق کئے بغیر دوسروں کو فارورڈکردیتے ہیں۔ اب اگر غلط معلومات پر مشتمل کوئی پیغام فارورڈ کیا گیا تو وہ غلط معلومات ہزاروں لوگوں میں رائج ہوتی جائیںگی، جس کا گناہ ہر اس شخص پر ہوگا جو اس کا ذریعہ بن رہا ہے۔ لہذا تحقیق کئے بغیرکوئی بھی پیغام خاص کر دینی معلومات سے متعلق فارورڈ نہ کریں، جیساکہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ذکر کیاگیا۔ یاد رکھیں کہ انسان کے منہ سے جو بات بھی نکلتی ہے یا وہ لکھتا ہے تو وہ بات اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: انسان منہ سے جو لفظ بھی نکالتا ہے، اس کے پاس نگہبان (فرشتے اسے لکھنے کے لئے) تیاررہتے ہیں۔ (سورۃ ق ۱۸)

اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ غلط خبروں کے شائع ہونے کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا ہے، مثال کے طور پر غزوۂ احد کے موقع پر آپؐکے قتل ہونے کی غلط خبر اڑادی گئی تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی، جس کا نتیجہ تاریخی کتابوں میں موجود ہے۔ اسی طرح غزوۂ بنو مصطلق کے موقع پر منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاکر غلط خبرپھیلائی تھی جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت بھی متأثر ہوئی تھی۔

ابتدا میں یہ خبر منافقین نے اڑائی تھی لیکن بعد میں کچھ سچے مسلمان بھی اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس میں شامل ہوگئے تھے۔آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں حضرت عائشہ ؓ کی برأت نازل فرمائی۔اور اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹی خبر پھیلانے والوں کی مذمت کی جنہوں نے ایسی غلط خبر کو رائج کیاکہ جس کے ذریعہ حضرت عائشہ ؓ کے دامن عفت وعزت کو داغ دار کرنے کی مذموم کوشش کی گئی تھی، ارشاد باری ہے: ان میں سے ہر ایک شخص پر اتنا گناہ ہے جتنا اس نے کمایا ہے اور ان میں سے جس نے اس کے بہت بڑے حصہ کو سر انجام دیا ہے اس کے لئے عذاب بھی بہت بڑا ہے۔ (سورۃ النور ۱۱)

اسی طرح آج بعض ویب سائٹیں اسلام سے متعلق مختلف موضوعات پر ریفرنڈم (رائے طلبی ) کراتی رہتی ہیں۔ ان ریفرنڈم میں ہمارے بعض بھائی کافی جذبات سے شریک ہوتے ہیں، اور اپنی صلاحیتوں کا ایک حصہ اس میں لگا دیتے ہیں۔ عموماً اس طرح کی تمام ویب سائٹیں اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لئے ہی استعمال کی جاتی ہیں، ان پر کوئی توجہ نہیں دینی چاہئے ، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: اے ایمان والو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذاء پہنچادو، پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ۔ (سورۃ الحجرات ۶) نیز اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے خواہاں رہتے ہیں ، ان کے لئے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے۔ (سورۃ النور ۱۹)

خلاصۂ کلام: سوشل میڈیا کو ہمیں اپنے شخصی وتعلیمی وسماجی وتجارتی مراسلات کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ دین اسلام کی تبلیغ اور علوم نبوت کو پھیلانے کے لئے استعمال کرنا چاہئے کیونکہ موجودہ دور میں یہی ایک ایسا میڈیا ہے جس کے ذریعہ ہم اپنی بات دوسروں تک بآسانی پہنچا سکتے ہیں، ورنہ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا تو عمومی طور پر مسلم مخالف طاقتوں کے پاس ہے۔ نیز اگر صحیح دینی معلومات پر مشتمل کوئی پیغام مستند ذرائع سے آپ تک پہونچے تو آپ اس پیغام کو پڑھیں بھی، نیز اپنی استطاعت کے مطابق زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بھی فارورڈ کریں تاکہ اسلام اور اس کے تمام علوم کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہوسکے۔ لیکن اگر آپ کے پاس کوئی پیغام غیرمعتبر ذرائع سے پہونچے تو اس پیغام کو بغیر تحقیق کئے ہرگز فارورڈنہ کریں۔ ماہ صفر کے منحوس ہونے یا اس میں مصیبتیں اور آفات نازل ہونے کے متعلق کوئی ایک روایت بھی موجود نہیں ہے، اور نہ ہی آج تک کسی مستند عالم دین نے اس کو تسلیم کیا ہے، لہٰذا اس نوعیت کے پیغام کو ہرگز ہرگز دوسروں کو ارسال نہ کریں، بلکہ انہیں فوراً ڈیلیٹ کردیں۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *