[]
سری نگر: جانی مانی سماجی جہدکار اور ناکام سیاستداں شہلا رشید نے کچھ دن گمنامی کے اندھیروں میں غرق رہنے کے بعد اچانک نمودار ہوتے ہوئے نریندر مودی کی تعریفیں شروع کردی ہیں۔
واضح رہے کہ وہ نریندر مودی، بی جے پی اور آر ایس ایس کی کٹر ناقد سمجھی جاتی تھیں۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طلبا تنظیم کے ساتھ مودی مخالف احتجاجیوں مظاہروں میں پیش پیش رہنے والی کنہیا کمار اور عمر خالد کی ساتھی شہلا رشید نے اب مودی کی تعریفیں کرتے ہوئے سب کو حیران کردیا ہے۔
شہلا رشید نے مرکز میں نریندر مودی کی زیرقیادت حکومت اور جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کی کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوششوں کی تعریف کرکے بہت سے لوگوں کو حیران کردیا ہے۔
شہلا رشید نے یہ غیر متوقع تعریف 15 اگست کو ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کی جسے جموں و کشمیر میں حکومت کے اقدامات پر ان کی سابقہ تنقیدوں سے ایک اہم رخصتی کی علامت سمجھا جارہا ہے۔
ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر شہلا نے مودی حکومت اور جموں و کشمیر انتظامیہ دونوں کی طرف سے اٹھائے گئے واضح موقف کی تائید کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا کہ اس اقدام نے کشمیریوں کی زندگیوں کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہ یہ تسلیم کرنا تکلیف دہ ہو سکتا ہے کہ @narendramodi حکومت اور @OfficeOfLGJandK انتظامیہ کے تحت کشمیر میں انسانی حقوق کا ریکارڈ بہتر ہوا ہے۔ میرا نقطہ نظر ہے کہ حکومت کے واضح موقف نے مجموعی طور پر لوگوں کی جان بچانے میں مدد کی ہے۔
واضح رہے کہ مودی حکومت نے 5 اگست 2019 کو دفعہ 370 منسوخ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کردی تھی اور کشمیر کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کردیا تھا۔ شہلا رشید مودی حکومت کے اس فیصلے پر ہمیشہ کھلی تنقید کرتی رہی ہیں۔
جے این یو طلبہ یونین کی سابق نائب صدر نے دفعہ 370 کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں داخل کردہ اپنی درخواست بھی واپس لے لی ہے۔
شہلا نے ایک ایسے مودی حکومت کی تعریف کی ہے جب ایک کشمیری رئیس مٹو کو ایک انٹرویو میں اپنی رہائش گاہ کی کھڑکی سے ہندوستانی قومی پرچم کو فخر سے لہراتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وہ جاوید مٹو (عسکریت پسند) کے بھائی ہیں۔
انٹرویو میں رئیس مٹو نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ترنگا اپنے دل سے لہرایا ہے اور کسی کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں ہے۔
نیوز ایجنسی اے این آئی کے ساتھ اپنی بات چیت میں انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اب یہاں ترقی ہے. میں پہلی بار 14 اگست کو اپنی دکان پر بیٹھا ہوں، پہلے یہ 2-3 دن بند رہتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پچھلی سیاسی جماعتیں گیم کھیل رہی تھیں… میرا بھائی 2009 میں ایک (دہشت گرد) بن گیا، اس کے بعد ہم اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے… اگر وہ زندہ ہے تو میں اس سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ واپس آجائے۔
رئیس مٹو نے یہ بھی کہا کہ “حالات بدل چکے ہیں، پاکستان کچھ نہیں کر سکتا… ہم ہندوستانی تھے، ہیں اور رہیں گے۔