[]
لکھنؤ: معروف عالمی دین ، دارالعلوم دیوبند و دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مجلس شوری کے رکن مولانا عبدالعلیم فاروقی کا پیران سالی کی وجہ سے آج انتقال ہوگیا۔ مرحوم 76 برس کے تھے۔مرحوم کے انتقال کی خبر ملتی ہی دینی و ملی گہوارے میں سوگ کی لہر دوڑ گئی۔
موصول اطلاع کے مطابق مرحوم کی نماز جنارہ معروف اسلامی ادارے ندوۃ العلماء میں ادا کی گئی جبکہ تدفین عیش باغ قبرستان میں ہوئی۔مولانا معروف عالم دین مولانا عبدالشکور فاروقی لکھنؤی کے پوتے اور عبدالسلام فاروقی لکھنؤی کے بڑے بیٹے ہیں۔ مرحوم کا شمار جمعیت علمائے ہند کے معروف رہنماؤں میں ہوتا تھا۔
سال 1948 میں نوابوں کے شہر لکھنؤ میں پیدا ہونے والے عبدالعلیم فاروقی نے ابتدائی تعلیم اپنے جد امجد و والد سے حاصل کرنے کے بعد سہارنپور چلے گئے۔وہاں سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعدسال 1971 میں لکھنؤ واپس آگئے اور مشہور دینی درسگاہ دارالمبلغین میں تدریسی فرائض انجام دینے لگے۔
1972 میں شادی ہوئی 1973میں والد محترم کے انتقال کے بعد ادارہ کا انتظام بھی آپ کے ذمہ ہوگیا چند سالوں کے بعد دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن ہوگئے۔
گنگا جمنی تہذیب کی وکالت کرنے والے مرحوم ایک ایسا ہندوستان دیکھنا چاہتے ہیں جہاں نام پوچھ کر شناخت نہ ہو۔بلکہ سب کو یکسان حقوق ملے اور ذات ۔ برادی کے نام پر کوئی تفریق نہ ہو۔
سال 2018 میں دارالعلوم ندوۃالعلماء کی مجلس شوری کا رکن منتخب ہونے سے پہلے لمبے عرصے تک آپ جمعیۃ علماء ہند کےقومی ناظم عمومی کے طور پر خدمات انجام دیں۔وہ دار المبلغین لکھنؤ کے مہتمم تھے۔ جسے انھوں نے دفاع اسلام اور حقانیت اسلام کی اشاعت کے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا۔ وہ مجلس تحفظ ناموس صحابہ لکھنؤ کے صدر تھے۔ سال 1998ء سے وہ لکھنؤ میں سالانہ جلوس مدحِ صحابہ کا کامیاب انعقاد کرتے آرہے تھے جس میں ہزاروں مسلمان شرکت کرتے تھے۔
تحریک مدح صحابہ کے سلسلہ میں ملک و بیرون بشمول پورے خلیج، عراق، انگلینڈ، پاکستان وغیرہ کے مختلف دورے کئے جسمیں بیرون ممالک کے سیکڑوں علماء نے آپ سے استفادہ کیا۔سال 1998 تا وفات انھوں نےمجلس شوری دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ مرحوم دینی تعلیم ٹرسٹ، لکھنؤ کے چیئرمین اور امیرِ شریعت اترپردیش اور سیکڑوں مدارس کے سرپرست بھی تھے۔ امیر معاویہ اور معاندین کے اعتراضات،آئینۂ مرزا،مذہب شیعہ کا علمی محاسبہ ان کی اہم تصانیف ہیں۔