[]
سہیل انجم
جب سات اکتوبر کو غزہ کی عسکریت پسند تنظیم حما س نے اسرائیل پر خفیہ انداز میں ایک بڑا حملہ کیا تو ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے فوری طور پر ایک بیان دے کر اسے دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا اور اسرائیل کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا تھا۔ انھوں نے بعد میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو سے فون پر بات کی اور انھیں ہندوستان کی حمایت کااعادہ کیا اور کہا کہ ہندوستان مضبوطی کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ حالانکہ یہاں کی وزارت خارجہ نے اس قسم کا کوئی پرجوش بیان دینے سے گریز کیا اور بعد میں اپنے بیانات میں کہا کہ بھارت فلسطینی کاز کے ساتھ ہے اور فلسطین اسرائیل تنازعے کے دو مملکتی حل کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن جب 14 اپریل کو ایران نے اسرائیل پر تین سو ڈرون سے حملہ کیا تو ہندوستان کا ردعمل مختلف تھا۔ ایران نے یہ کارروائی یکم اپریل کو دمشق میں اپنے سفارت خانے پر اسرائیل کے حملے کے جواب میں کیا تھا جس میں ایران کے پاسداران انقلاب کی بیرون ملک شاخ قدس فور س کے ایک سینئر کمانڈر جنرل محمد رضا زاہدی سمیت تیرہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس نے اس حملے کا انتقام لینے کی دھمکی دی تھی اور اسی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس نے یہ کارروائی کی۔
ہندوستان نے جہاں حماس کے حملے کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا تھا اور اسرائیل کے ساتھ کھڑے رہنے کا اعلان کیا تھا وہیں اس نے ایرانی کارروائی کو دہشت گردی نہیں کہا اور نہ ہی دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات کہی۔ البتہ وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں دونوں ملکوں سے تحمل سے کام لینے اور مذاکرات و سفارت کاری سے کشیدگی کو دور کرنے کی اپیل کی۔ اس نے کشیدگی کو فوری کم کرنے، تشدد سے دور رہنے اور سفارت کاری کے راستے پر لوٹنے کی اپیل کی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ صورت حال پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے۔ خطے کے ہندوستانی سفارت خانے ہندوستانی برادری کے رابطے میں ہیں۔ وہاں امن و استحکام کا قیام انتہائی ضروری ہے۔ ادھر وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ سے بذریعہ فون گفتگو کی اور موجودہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ انھوں نے دونوں کے رابطے میں رہنے سے اتفاق کیا۔ انھوں نے ایرانی ہم منصب سے گفتگو میں آبنائے ہرمز میں ایران کے ذریعے پکڑے گئے مال بردار تجارتی جہاز ’ایم ایس سی ایریز‘ پر عملہ کے 25 ارکان میں سے ہندوستان کے 17 ارکان کے سلسلے میں بھی بات کی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہندوستانی اہلکاروں کو ان سے ملنے کی جلد اجازت دی جائے گی۔ خیال رہے کہ اس پرتگالی جہاز کا تعلق ایک اسرائیلی ارب پتی سے بتایا جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد ہندوستان کے ردعمل اور اسرائیل پر ایران کے حملے کے بعد کے ردعمل میں کافی فرق ہے۔ دراصل ہندوستان کے لیے مشرق وسطیٰ ایک ایسا اہم خطہ ہے کہ وہاں پیش آنے والے کسی بھی واقعہ کو وہ نظرانداز نہیں کر سکتا۔ اس نے گزشتہ ایک عشرے میں خطے کے ممالک سے اپنے تعلقات کو نئی جہت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ان ملکوں کے حکمرانوں سے ذاتی تعلقات بھی استوار کیے ہیں اور سفارتی رشتے بھی۔ دراصل اس خطے میں ہندوستان کے بھی مفادات ہیں۔ اگر وہاں غیر یقینی حالات پیدا ہوتے ہیں تو اس کا اثر اس پر بھی پڑ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ایران کے حملے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران اسرائیل جنگ کی صورت میں ہندوستان نہ تو کسی ایک ملک کی حمایت کر سکتا ہے اور نہ ہی مخالفت۔ اس کے نزدیک دونوں ملکوں سے اس کے تعلقات اہم ہیں اور وہ ان میں سے کسی ایک کی حمایت یا مخالفت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ خلیجی ملکوں میں ہندوستان کے تقریباً 70 لاکھ افراد کام کرتے ہیں جو سالانہ 90 ارب ڈالر سے زیادہ زرِمبادلہ ہندوستان بھیجتے ہیں۔ اگر وہاں جنگ ہوتی ہے تو سب سے زیادہ وہی لوگ متاثر ہوں گے اور زرِ مبادلہ کی ترسیل رک جائے گی جس کا یہاں کی معیشت پر اثر پڑے گا۔ اس سے ہندوستان کو زرِمبادلہ کا نقصان تو ہوگا ہی وہاں کام کرنے والے ہندوستانی ورکرز کے اہل خانہ یہاں پریشان ہوں گے۔ وہ حکومت سے ان کے تحفظ کی اپیل کریں گے اور اطمینان بخش اقدامات کی عدم موجوگی میں وہ حکومت کے خلاف احتجاج بھی کر سکتے ہیں۔ جہاں تک فلسطین اسرائیل تنازعے کا تعلق ہے تو وہ تاریخی ہے۔ ہندوستان اس کو اسی تناظر میں دیکھتا ہے۔ لیکن ایران کی بات دوسری ہے۔ وہ ایک بڑا ملک ہے۔ اس کی سرحد ایک طرف پاکستان سے ملتی ہے تو دوسری طرف یوروپ سے۔ خطے میں کوئی بھی تجارت یا نقل و حمل اس کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سے ہندوستان کے تاریخی رشتے ہیں۔ متنازع جوہری پروگراموں کی وجہ سے پابندی عاید ہونے سے قبل تک وہ ہندوستان کو تیل سپلائی کرنے والا دوسرا بڑا ملک تھا۔ گوکہ گزشتہ چار برس سے وہ اس سے تیل خرید نہیں پا رہا ہے لیکن دونوں میں قریبی تعلقات ہیں۔ دونوں ملکوں نے 2002 میں ایک دفاعی معاہدہ کیا تھا۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے رواں سال کے شروع میں ایران کا دورہ کیا تھا۔ ہندوستان نے چابہار بندرگاہ کی تعمیر میں سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ ایران نے کئی معاملات میں ہندوستان کی مدد کی ہے۔ وسطی ایشیائی ملکوں کے ساتھ اس کے رشتے ہوں یا ’انٹرنیشنل نارتھ ساوتھ ٹرانسپورٹ کاریڈور‘ کا معاملہ ہو، طالبان کا معاملہ ہو یا پھر سیکورٹی اور دفاعی تعلقات ہوں، ایران کا تعاون بھار ت کے لیے بہت اہم ہے۔ خیال رہے کہ ایران، روس اور ہندوستان نے ستمبر 2000 میں یہ کثیر رخی ماڈل قائم کیا تھا جس کا مقصد رکن ملکوں کے درمیان نقل و حمل کے شعبے میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔ بعد کو اس میں دیگر متعدد ممالک کو بھی شامل کیا گیا۔
ادھر اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے اسٹریٹجک رشتے ہیں۔ دونوں میں عشروں سے دفاع اور ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں تعاون ہے۔ وزیر اعظم مودی 2018 میں اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے وزیر اعظم تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو سے ان کے دوستانہ تعلقات ہیں۔ اسرائیل ہندوستان کو سب سے زیادہ اسلحہ سپلائی کرتا ہے۔ حماس اسرائیل جنگ کا بھی ہندوستان پر کچھ نہ کچھ اثر پڑ رہا ہے۔ ایئر انڈیا نے تل ابیب کے لیے اپنی پروازیں ایک بار پھر معطل کر دی ہیں۔ اگر دونوں ملکوں میں براہ راست تعلق نہیں ہوگا تو دفاعی رشتوں پر اثر پڑے گا۔ لہٰذا اگر دونوں ملکو ں میں جنگ ہوتی ہے تو ہندوستان کی پوزیشن نازک ہو جائے گی یا وہ مشکل میں پھنس سکتا ہے۔ اسی لیے تجزیہ کار ایرانی حملے کے بعد وزارت خارجہ کے بیان کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی دشمنی سے انتہائی فکر مند ہیں۔ اس سے خطے میں امن و سلامتی کو خطرہ ہے۔ ایک تھنک ٹینک ’ساوتھ ایشین اسٹڈیز‘ کے ڈائرکٹر اور خارجہ امور کے سینئر تجزیہ کار سی راجہ موہن نے انگریزی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے لیے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ اسرائیل پر ایران کے حملے کے بعد ہندوستان کا ردعمل اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد کے ردعمل سے متضاد ہے۔ اسے نان اسٹیٹ ایکٹرز کی دہشت گردی اور دو اسٹیٹ ایکٹرز کے درمیان چلی آرہی علاقائی دشمنی کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ دونوں ملکوں سے ہندوستان کے بہت اچھے رشتے ہیں اور وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کر سکتا۔ اگر سات اکتوبر کے ہندوستان کے ردعمل کو اسرائیل کا ساتھ دینے کے طور پر دیکھا گیا تو اس کے موجودہ ردعمل کو ایک متوازن موقف کے طور پر اور خطے میں امن کی حمایت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ مشرق وسطیٰ کے مختلف ملکوں کے باہمی تنازعات اور ان ملکوں کے داخلی تنازعات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ لہٰذا ہندوستان کو خطے کے ملکوں کے ساتھ، جن کے متضاد مفادات ہیں، تعلقات کو متوازن رکھنا ہے۔ اسرائیل ہو یا ایران یا خطے کے دیگر ملک، ہندوستان ان کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ باہمی تعاون کی بنیاد پر اپنے رشتے قائم کر رہا ہے۔ بہرحال یہ معاملہ ہندوستان کے لیے بھی باعث تشویش ہے۔ اگر کشیدگی بڑھ کر جنگ تک پہنچ جاتی ہے تو ہندوستان کا متاثر ہونا فطری ہے۔ اسی لیے اس نے انتہائی تشویش کا اظہار کیا اور سفارت کاری سے مسئلے کے حل پر زور دیاہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰