ہمارا ووٹ ملک کے حالات بدل سکتا ہے

[]

محمد اعظم شاہد
حصول آزادی کے بعد ملک کی پارلیمان کی 18ویں لو ک سبھا کے لیے انتخابات اسی ماہ یعنی اپریل 19سے یکم جون تک 7مرحلوں میں کل 543 حلقوں کے لیے منعقد ہونے جارہے ہیں۔44 دنوں کے دورانیہ کے دوران منعقد ہونے والے ان انتخابات میں ملک میں بسنے والوں میں 960 ملین لوگ اپنے ووٹ کا استعمال کرسکیں گے۔اس بار کا الیکشن پچھلے کئی الیکشن کے مقابلے میں کافی اہمیت کا حامل مانا جارہا ہے۔ملک کا انتظامیہ اور اس کی دیکھ ریکھ کے حوالے سے کئی طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیںیہ بھی اندازہ لگایاجارہا ہے کہ اب ووٹر پہلے سے زیادہ خود کو حالات سے آگاہ،چوکنا اور باشعور بنا ہوا ہے۔الیکشن کی تشہیر کے ہجوم میںخود کو گم کرلینے سے زیادہ وہ اپنے فیصلہ پر سختی سے پابند ہے۔مگر اس کے باوجود بھی عوام کا ایک طبقہ اپنے اندھے عقائد کی بنیاد پر اندھی تقلید کا شکار بھی ہے۔ یعنی مذہب کی برتری اور سربلندی کا نظریہ رکھنے والے ایسے لوگ مفاد پرست سیاسی پارٹیوں کے جھانسے میں آسانی سے آجاتے ہیں۔جہاں صدیوں سے کئی مذاہب کے ماننے والے ہم آہنگی اور بقائے باہمی جذبے کے ساتھ اس ملک میں بستے آرہے ہیںوہیںمذہبی منافرت کے نام پر آپس میں لوگوں کو بانٹا بھی جارہا ہے۔مذہبی بنیادوں پر آپس میں خوف،نفرت اور عدم رواداری کے نظریا ت کو اشتعال انگیز تقاریر اور بیانات سے ملک کی فضائوں کو مکدر کرنے کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں۔آر ایس ایس ملک کو اپنی سیاسی پارٹی بی جے پی کے توسط سے زعفرانی رنگ میں رنگنے کے اپنی لانگ ٹرم (دائمی منصوبے)پلاننگ میں مصروف ہے۔یوں کہنا چاہئے کہ وہ کس منصوبے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہے۔اس کامیابی کی تصدیق 2014 سے 2024 تک مرکز میں مودی کی حکومت کی کارکردگی سے واضح ہوجاتی ہے۔
ہمارا مشاہدہ اس بات کا شاہد ہے کہ مودی حکومت کی کارکردگی ایک طرح سے تاناشاہی اور جمہوری اقدار سے انحراف کرتے ہوئے آمریت Dictatorshipکے نظریات سے بھری حکومت رہی ہے۔اپنے 10 سالہ دور ِاقتدار میں مودی نے اپنی من مانی سے حکومت چلائی ہے بار بار جھوٹ بول کر اپنے کہنے کو سچ ثابت کرنے کی کوششیں کی ہیں۔اپنے نعرہ بازیوں اعلانات میں کہا کچھ جاتا رہا اور اصل میں جو کچھ ہوتا رہا وہ کہنے سے الگ ثابت ہوتا رہا۔ان حالات میں ملک کا دھارا اپنی مرضی سے موڑ لینے کی نیت رکھنے والے مودی اور ان کی پارٹی کی تنگ نظری سے ملک کو بچانے کا مضبوط ارادہ رکھنے والے تمام فرض شناس احباب کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔اگر ملک کو اپنے سیکولر کردار سے مضبوط اور مستحکم رکھنے کی آرزو ہے تو ظاہر ہے تنگ نظری کا مقابلہ کرنے والی سیاسی جماعتوں کا ساتھ دینا ملک کے مفاد میں ہر اعتبار سے بہتر فیصلہ ہوگا۔گوکے سرمایہ داروں کی حمایت سے کس طرح بی جے پی اپنا الیکشن چلاتی رہی یہ الیکٹورل بانڈس کی ساجھے داری سے ہوتا رہا اب اس کا انکشاف منظر عام پر آنے کے بعد بی جے پی کی پول کھل گئی ہے۔دراصل سرمایہ کی بہتات نے ہر اچھے برے طریقے سے ووٹوں کو اپنے حمایت میں کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔اب ایک جٹ ہوکر اپنے ووٹ کی طاقت کا استعمال کرنا ہی ہماری بقا،سلامتی اور شناخت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ آپس میں ووٹوں کا اختلاف رائے سے منتشر ہوجانا یا بکھر جانا اس بی جے پی کے لیے فائدہ مند ہوجائے گا جو آپسی انتشا ر سے فیض حاصل کرتی رہی ہے۔
ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں آپوزشن کو اب پہلے سے زیادہ مستعد اور متحرک رہنا اور ثابت کرنا ہے۔مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کو اور با لخصوص اقلیتوں کے ساتھ محض زبانی ہمدردی جتا کر ان کی شناخت پر حملے کرنے والی بنیاد پرست اور ہندو پرست بی جے پی کو اپنے مقاصد میں ناکام کرنا ہے تو سیکولر پارٹی کو اپنی حمایت سے سرفراز کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔اپنے ووٹ کے معقول استعمال کے حق سے آگاہی عام کرنے کا سلسلہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی مسلسل ہورہا ہے۔کئی نجی ادارے بھی اس آگاہی کو عام کرنے اور عوام میں جمہوریت کی بقا کے لیے ووٹ کے استعمال پر ممکنہ کوششیں کررہے ہیں۔سوشل میڈیا بھی اس ضمن میں کام کر رہا ہے،کئی ایک ویڈیوز میں یہ فکر بھی جتائی جارہی ہے کہ فرقہ پرست اور مفاد پرستوں کی شکست کے لیے ووٹ کا استعمال ملک کی وراثت کو قائم رکھنے اور امن وامان کے لیے سنجیدگی سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہئے۔
الیکشن کی تشہیر کے شور میں ملک کا باشعور شہری ملک کے تئیں اپنے ذمہ داری کو سمجھے۔اس ضمن میں ہر طبقے سے جڑے ادارے مستعد ہیں۔تجزیہ نگار،دانشور احباب،فعال صحافیوں کا حلقہ،ذمہ دار اخبارت، سیاسی بسیرت سے معمور احباب ووٹروں کی رہنمائی میں متحرک نظر آرہے ہیں۔اور منبر ومحراب سے علمائے کرام بھی اپنے خطبات میں بار بار یاد دہانی کروارہے ہیں کہ اپنے ووٹ کا معقول استعمال کر کے ملک کو فرقہ پرستی سے محفوظ رکھیں۔یہ فال نیک ہے۔ہر ممکنہ کوشش ہورہی ہے کہ اس بار کا لوک سبھا الیکشن فیصلہ کن ثابت ہو۔جمہوریت میں ہٹ دھرمی اورآمریت کا خاتمہ ہواور عوام پر ور حکومت کے قیام کے لیے راستہ ہموار ہو۔عید الفطر کی نماز کے بعد خطبات میں بھی اس جانب توجہ مبذول کروائی جائے تو امید ہے کہ اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ہم میں سے ہر ایک کو حالات پر گہری نظر رکھنی ہوگی۔اپنے ووٹ کے موثر اور معقول استعمال سے ملک کے حالات میں بدلائو کے لیے آئینی کردار نبھانا ہی ہوگا۔ارمان آرزئوں سے آگے بڑھ کر عملی طو ر پر اپنے ووٹ کو جمہوری ہتھیار بنا کر استعمال کرنا اب ناگزیر بن گیا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *