[]
ابوعمار زاہد الراشدی
آج کا ہمارا موضوع ہے کہ مہمان نوازی کے حوالے سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہدایات فرمائی ہیں اور حضورؐ کی سنت مبارکہ کیا تھی؟ آپؐ کا نبوت کے بعد جو پہلا تعارف ہے وہ مہمان نوازی کے حوالے سے ہے۔ جناب نبی اکرمؐ پر جب غارِ حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی تو آپؐ نے یہ واقعہ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبرٰیؓ سے ذکر کیا اور فرمایا ’’خشیت علٰی نفسی‘‘ مجھے اپنے بارے میں ڈر لگنے لگا ہے۔
آپؐ کو تشویش تھی، حضورؐ نے اپنے خدشے کا اظہار کیا تو حضرت خدیجہؓ نے حضورؐ کو تسلی دی کہ ’’لن یخزیک اللہ ابدًا‘‘ اللہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اور پھر انہوں نے آپؐ کی کچھ صفات بیان کیں کہ ان صفات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آپ کو پریشان نہیں کرے گا، اللہ تعالیٰ اچھے لوگوں کو پریشان نہیں کیا کرتا۔ ان صفات میں یہ فرمایا ’’تصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق‘‘ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کی سماجی خدمات کا ذکر کیا کہ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، مصیبت زدہ لوگوں کے کام آتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتے ہیں، مہمانوں کی مہمانی کرتے ہیں۔
’’الضیف‘‘ اس زمانے میں دو قسم کے لوگوں کے لیے بولا جاتا تھا۔ ایک وہ جو کہیں سے ملنے کے لیے آئیں اور دوسرے بے ٹھکانہ مسافر پر بھی الضیف کا لفظ بولا جاتا تھا۔ پہلے زمانے میں ہوتا تھا کہ مسجد میں مسافر آجاتے اور کہتے میں مسافر ہوں تو لوگ ان کی مہمانی کر دیا کرتے تھے۔ حضرت علیؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک کہ مہمان ساتھ نہ ہوتا۔ اگر کوئی مہمان نہ آتا تو باہر گلی سے کسی مسافر کو گھر لے آتے کہ میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ حالانکہ حضرت علیؓ امیر آدمی نہیں تھے، تنگ دستی کے ساتھ گزارا کیا کرتے تھے۔ مہمان کی خدمت و اکرام کے متعلق آنحضرتؐ نے یوں بیان فرمایا ’’من کان یؤمن باللہ والیوم الاخر فلیکرم ضیفہ‘‘ جس کا اللہ اور آخرت پر ایمان ہے اسے چاہیے کہ وہ مہمان کا اکرام کرے۔
مہمان کا اکرام کیا ہے؟ مہمان کے اکرام میں آنحضرتؐ نے مختلف احادیث میں چار درجے بیان فرمائے ہیں۔ پہلی بات فرمائی، ابوداؤد شریف کی روایت ہے ’’لیلۃ الضیف حق واجب علٰی کل مسلم‘‘ مہمان کی پہلی رات ہر مسلمان پر حق اور واجب ہے۔ کھانے کا ذکر نہیں فرمایا، رات کا ذکر فرمایا، اس سے مراد یہ ہے کہ مہمان کے رہنے، آرام اور کھانے کا انتظام کرنا۔ اس سے اگلا درجہ آپؐ نے فرمایا ’’جائزۃ الضیف یوم و لیلۃ‘‘ مہمان کا اکرام یعنی اس کے لیے خصوصی طور پر کچھ پکانا، اہتمام کرنا ایک دن اور ایک رات ہے۔
مہمان کا اکرام یہ ہے کہ عام معمول سے ہٹ کر اسے کوئی چیز تیار کی جائے، اس کے لیے منگوائی جائے۔ اور تین دن مہمانی مہمان کا حق ہے، ایک دن خصوصی اور باقی دو دن عمومی جو گھر میں پکا ہو۔ اور چوتھے دن جو اس پر خرچ ہو وہ صدقہ ہے۔ اس سے آپؐ نے مہمان کو بھی اشارہ کیا کہ تمہارا بھی زیادہ دن رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ اسی لیے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا معمول یہ تھا کہ کہیں جاتے، نافعؒ یا سالمؒ ساتھ ہوتے تھے کہ آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ نافع شاگرد اور سالم بیٹے تھے، چوتھے دن ان سے کہتے بیٹا! اب ہم اپنا خرچہ خود کریں گے، چوتھا دن صدقہ ہوتا ہے اور میں صدقہ نہیں کھایا کرتا۔
یہ تو اشارتاً فرمایا، دوسری حدیث میں صراحتًا فرمایا، مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کو تنگ نہ کر دے کہ وہ دن گننے لگے کہ یہ کب جائیں گے؟ زیادہ سے زیادہ تین دن مہمانی کے ہیں اس کے بعد میزبان کی مرضی ہے، یہ نہیں فرمایا کہ اسے دھکے دے کر گھر سے نکال دو۔
میزبان کو تنگ کرنے کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً کہیں مہمان ہوا تو خواہ مخواہ کیڑے نہ نکالے کہ یہ جگہ کیسی ہے، کھانے میں نمک زیادہ تھا، سالن میں مرچیں زیادہ تھیں، چائے کیسی بنائی ہے، وغیرہ۔ انہوں نے اپنی حیثیت کے مطابق جیسا انتظام کیا ہو ، شکر کے ساتھ قبول کرے۔ ظاہر ہے مزاج مختلف ہوتے ہیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ میں جہاں جاؤں وہاں ساری باتیں میری مرضی کے مطابق ہوں؟ کئی باتیں میرے معیار سے زیادہ ہوں گی، کئی کم ہوں گی، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ میں جہاں جاؤں وہاں سارے کام میری مرضی کے مطابق ہوں۔ اس لیے خواہ مخواہ نکتہ چینی کرنا اور عیب نکالنا ٹھیک نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ میزبان کی حیثیت سے زیادہ دیر اس کے ہاں رہنے کو پسند نہیں کیا گیا۔ اس کو بے بس نہ کر دے کہ وہ کہے کل آپ کا قیام ہے یا کوچ؟ مہمان کہے قیام، تو میزبان کہے پھر ہمارا تو کوچ ہے۔ تیسرے عام طور پر علماء کرام، خطباء عظام اور اس سے بڑھ کر لیڈروں اور پیران محترم کے ہاں یہ ہوتا ہے کہ دعوت دو آدمیوں کی ہوتی ہے اور یہ بتائے بغیر دس بارہ آدمیوں کو ساتھ لیے میزبان کے ہاں پہنچ جاتے ہیں۔ میرے ساتھ اگر آدمی زیادہ ہوں تو مجھے بتانا چاہیے کہ میرے ساتھ اتنے آدمی اور ہیں تاکہ میزبان اس کا انتظام کر لے۔ کوئی اگر دعوت دے کہ میرے ہاں چائے پی لیجئے گا اور یہ بیس آدمیوں کو لے کر پہنچ جائے تو اب میزبان نہ پلانے کا اور نہ چھوڑنے کا۔
حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ سے یہ قصہ سنا کہ وہ کہیں سفر پر جا رہے تھے تو ایک آدمی نے دعوت دی کہ حضرت! گزرتے گزرتے چائے میرے ہاں پی لیں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے سفر میں کچھ دیر رک جائیں گے چائے پی لیں گے۔ یہ جب پہنچے تو چار پانچ گاڑیاں تھیں اور اس بیچارے نے چار پانچ آدمیوں کی چائے کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ اب وہ فوری طور پر تیس آدمیوں کی چائے کا کیسے انتظام کرتا۔ اس نے بڑی سمجھداری کا مظاہرہ کیا کہ حضرت جب پہنچے تو اس نے گاڑی میں ہی حضرت کو دو سو روپیہ پیش کیا کہ حضرت! میرے ہاں اتنے آدمی بٹھانے کی جگہ نہیں ہے آپ راستے میں کہیں ہوٹل سے چائے پی لیجیے گا۔
ایک واقعہ میرے ساتھ پیش آیا کہ ایک دفعہ ایک دوست نے مجھے فون کیا کہ ہم کچھ دوست آرہے ہیں، شام کا کھانا آپ کے ہاں کھائیں گے۔ میں نے پوچھا کتنے آدمی ہیں؟ انہوں نے کہا ایک گاڑی کے آدمی ہیں۔ گاڑی میں عموماً زیادہ سے زیادہ پانچ آدمی ہوتے ہیں، میں نے پانچ چھ آدمیوں کا کھانا تیار کروا لیا۔ شام کو جب گاڑی پہنچی تو وہ ویگن تھی جس میں اٹھارہ آدمی تھے۔ میں نے اسے کہا، اللہ کے بندے! بتا دینا تھا گاڑی کون سی ہے؟ وہ کہنے لگا، آپ نے پوچھ لینا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر اس وقت بازار سے کچھ نہ ملتا ہو تو کتنی پریشانی ہوتی۔ میزبان کو تنگ کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے۔
غزوۂ خندق کے موقع پر سارے صحابہؓ خندق کھود رہے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خندق کھودنے میں مصروف تھے، کھانے پینے کو کچھ نہیں تھا، کئی دن سے بھوکے تھے۔ ایک آدمی نے آ کر عرض کیا یا رسول اللہ! سخت بھوک لگی ہے کیا کروں؟ فرمایا برداشت کرو، صبر کرو۔ اس نے پیٹ سے کپڑا اٹھایا اور دکھایا کہ اس نے بھوک کے احساس کو روکنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھا ہوا ہے۔ جب اس نے یہ کیا تو حضورؐ نے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹایا، آپؐ نے دو پتھر پیٹ پر باندھے ہوئے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت جابرؓ کہتے ہیں مجھ سے برداشت نہ ہوا میرا گھر وہاں قریب ہی تھا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! اجازت ہو تو میں گھر چکر لگا آؤں۔
آپؐ نے فرمایا جاؤ۔ میں گھر گیا اور جا کر بیوی سے پوچھا گھر میں کوئی کھانے کی چیز ہے، حضورؐ سخت بھوک میں ہیں؟ اس نے کہا ایک بکری کا بچہ اور ایک صاع جَو ہوں گے اور تو کچھ بھی نہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے خود بکری کا بچہ ذبح کیا اور ان کی بیوی نے آٹا پیسا۔ بیوی سے کہا تم ہانڈی پکاؤ، میں حضورؐ کو بلا کر لاتا ہوں۔ ان کی بیوی نے کہا زیادہ سے زیادہ آٹھ دس آدمیوں کا کھانا ہو سکتا ہے، زیادہ آدمیوں کو دعوت نہ دیجیے گا۔ حضرت جابرؓ گئے اور حضورؐ کے کان میں کہا میں گھر گیا تھا تھوڑا بہت بندوبست کر کے آیا ہوں، آٹھ دس آدمیوں کا کھانا ہے آپ تشریف لے چلیں ساتھ آٹھ نو آدمیوں کو لے چلیں جا کر کھانا کھا لیں۔ لیکن حضورؐ سات آٹھ سو ساتھیوں کو بھوکا چھوڑ کر خود کھانا کھانے کیسے جا سکتے تھے؟ وہ کوئی عام لیڈر نہیں تھے کہ کہتے ابھی کھلاؤ اور باقی فریزر میں رکھ دو کل کام آئے گا۔
حضورؐ نے اعلان فرما دیا کہ جابرؓ نے دعوت کی ہے سب چلو، جتنے لوگ موجود تھے سب چل پڑے۔ حضرت جابرؓ پریشان ہوئے کہ کھانا آٹھ دس آدمیوں کا ہے وہ آٹھ سو آدمیوں کو کیسے پورا ہو گا۔ جب گھر کے قریب پہنچے تو ان کی بیوی نے دیکھ لیا کہ اتنے زیادہ آدمی جابرؓ ساتھ لا رہے ہیں تو اس نے سمجھا کہ جابرؓ نے بتایا نہیں ہو گا اس لیے حضورؐ سارے ساتھیوں سمیت آرہے ہیں۔ چنانچہ حضرت جابرؓ کو بلا کر کہا ’’بِکَ وَبِکَ‘‘ تیرے ساتھ یہ ہو، تیرے ساتھ وہ ہو، یہ کیا کر دیا، ان سب کو کون کھلائے گا؟ انہوں نے کہا اللہ کی بندی! مجھے مت کوسو، میں نے حضورؐ سے کہہ دیا تھا۔ بیوی نے پوچھا واقعی کہہ دیا تھا؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے تو کہہ دیا تھا۔
بیوی کہنے لگی، پھر اللہ جانے اور اللہ کا رسول جانے، پھر کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ چنانچہ حضورؐ نے فرما دیا ہنڈیا سے ڈھکن نہیں اٹھانا اور آٹے سے کپڑا نہیں اٹھانا۔ حضورؐ نے آٹے پر ہاتھ پھیرا، لعاب مَلا، ہنڈیا میں تھوک مبارک ڈالا، اور فرمایا پکاتے رہو، لوگ کھاتے رہیں۔ چنانچہ عصر تک کھانا پکتا رہا، لوگ کھاتے رہے۔ آٹھ سو آدمیوں نے پیٹ بھر کے کھانا کھایا۔ بعد میں دیکھا کہ ہنڈیا بھی ویسی کی ویسی ہے اور آٹا بھی ویسے کا ویسا ہے۔ یہ حضورؐ کا معجزہ تھا ہمارے لیے ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
ایک اور موقع کی بات ہے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند ساتھیوں سمیت کھانے کی دعوت کی، ایک اور آدمی بھی ساتھ ہو لیا تو گھر کے دروازے پر پہنچ کر حضورؐ نے میزبان سے کہا، دیکھو! یہ آدمی گنتی میں شامل نہیں ہے، از خود آگیا ہے اب تمہاری مرضی ہے اس کو بٹھاؤ، تمہاری مرضی ہے نہ بٹھاؤ، ہماری وجہ سے تم پابند نہیں ہو۔ حالانکہ وہ حضورؐ کے ساتھ گیا تھا، میزبان نے کیا کہنا تھا، لیکن حضورؐ نے اصول بیان فرما دیا، مسئلہ بیان فرما دیا کہ جتنوں کی دعوت ہو، اتنے ہی جاؤ۔ اس نے کہا، یارسول اللہ! آپ کے ساتھ آیا ہے یہ بھی کھانے میں شریک ہو جائے۔ آج کل ہمارے ہاں اس کی پرواہ نہیں کی جاتی، ہمیں تو سب گھر والوں کو کسی شادی پر جانے کے لیے ایک کارڈ کافی ہوتا ہے۔
ایک لطیفہ پچھلے دنوں پڑھا تھا کہ ایک آدمی کو کسی نے دعوت دی تو وہ سارے گھر والوں کو لے کر پہنچ گیا۔ میزبان نے کہا، حیا نہیں آئی۔ مہمان نے کہا، اس کے پیپر تھے اس لیے نہیں آئی، گھر پر رہ کر تیاری کر رہی ہے، باقی ہم سب آ گئے ہیں۔
میں نے آج یہ بیان کیا کہ حضورؐ نے مہمانی کے آداب بیان فرمائے ہیں، مہمان نوازی کا حکم دیا ہے، اور میزبان و مہمان دونوں کو ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا بھی حکم دیا ہے، اور خود بھی جناب نبی کریمؐ مہمانوں کی خدمت کیا کرتے تھے۔
ایک واقعہ اور سنا دیتا ہوں جس کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔ حضورؐ کا عام معمول تھا کہ کوئی مسافر مہمان آ جاتا تو ازواج مطہراتؓ کے حجروں میں پیغام بھیجتے کہ کوئی چیز کھانے کو ہے؟ اگر ستو، کھجوریں، دودھ وغیرہ ہوتا تو وہ بھیج دیتے۔ ایک دفعہ کوئی مہمان آیا آپؐ نے پیغام بھیجا لیکن نو حجروں میں سے کسی گھر سے بھی مہمان کا کھانا نہیں نکلا۔ حضورؐ نے لوگوں سے کہا، میرا مہمان ہے کوئی اسے کھانا کھلا دے گا؟ ابوطلحہ انصاریؓ اٹھے اور کہا میں گھر چکر لگا کر آتا ہوں، ذرا دیکھ آؤں گھر میں کیا کچھ ہے۔ گھر تشریف لے گئے، اہلیہ محترمہ ام سُلیم سے کہا حضورؐ کا ایک مہمان ہے، گھر میں کوئی چیز کھانے کو ہے؟ اس نے کہا صرف ایک آدمی کا کھانا ہے، یا تم کھا لو، یا میں کھا لوں، یا بچوں کو کھلا دیں، یا مہمان کو کھلا دیں۔ اتنا کھانا ہے کہ ایک آدمی کا گزارا ہو جائے گا۔
ابوطلحہؒ نے کہا، حضورؐ کا مہمان ہے اس لیے بچوں کو تو بہلا پھسلا کر سلا دو۔ کھانا دستر خوان پر رکھ دینا۔ عرب مہمان نوازی کے اصولوں کے مطابق میزبان نے ساتھ بیٹھ کر کھانا ہوتا ہے، مہمان اکیلے کھانا نہیں کھاتا۔ تو اس میں مسئلہ یہ تھا کہ اگر ابوطلحہ کھانا کھاتے تو مہمان کیا کھاتا۔ اس کا حل یہ نکالا کہ کہا، میں مہمان کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ جاؤں گا، ایک آدھ لقمہ لوں گا تم چراغ ٹھیک کرنے کے بہانے چراغ بجھا دینا۔ میں اندھیرے میں منہ ہلاتا رہوں گا، مہمان تسلی سے کھانا کھا لے گا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا اور مہمان کو اس طریقے سے کھانا کھلایا۔ اللہ رب العزت کو ان کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ قرآن مجید میں انصارِ مدینہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ’’یؤثرون علٰی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ‘‘ (سورہ الحشر ۹) دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود بھوک سے ہوں۔
حضورؐ ایک اور بات کا اہتمام بھی کرتے تھے کہ مہمان آتا تو آپؐ اس سے اس کی سواری کا پوچھا کرتے کہ اونٹ کہاں باندھا ہے؟ اس کو کچھ کھلایا پلایا ہے؟ حضرت عمرؓ کا بھی سختی سے یہ معمول تھا کہ قافلہ آتا تو بندوں کو جگہ دینے سے پہلے پوچھتے اونٹ کہاں کھڑے کیے ہیں؟ خچریں کدھر ہیں؟ ان کے پانی، گھاس کا انتظام کیا ہے؟ ایک مرتبہ ایک صاحب حضورؐ کے پاس آئے۔ حضورؐ نے پوچھا، کہاں سے آئے ہو؟ بتایا، فلاں جگہ سے۔ دریافت فرمایا، اونٹ کہاں ہے؟ اس نے کہا، اللہ کے توکل پر باہر چھوڑ دیا ہے۔ فرمایا، پہلے اونٹ کو باندھو، پھر توکل کرو۔ آج کل اونٹ، خچر تو نہیں ہوتے، موٹر سائیکل یا گاڑی ہوتی ہے۔ اگر رات موٹر سائیکل باہر کھڑی رہ جائے تو ممکن ہے صبح نہ ملے، اس لیے مہمان کے حقوق میں یہ بھی ہے کہ اس کی سواری کو محفوظ جگہ مہیا کی جائے۔ بہرحال مہمان کی عزت، احترام، حسب موقع اس کا اکرام کرنا اور اس کی ضروریات کا خیال رکھنا اور اس کی سواری کا خیال رکھنا، ان سب باتوں کی رعایت کرنے کا حکم سیرتِ نبویؐ میں دیا گیا ہے۔
٭٭٭