[]
ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی
رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں۔ (۱) سلام کا جواب دینا(۲)بیمار کی عیادت کرنا(۳)جنازہ کے ساتھ جانا (۴) کھانے کی دعوت قبول کرنا اور (۵) چھینک کا جواب دینا ۔ چوتھے حق سے ظاہر ہوتا ہے کہ دعوت کا قبول کرنا برحق ہے۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ آج ہم اسلام کے بنیادی اقدار سے کوتاہی کررہے ہیں۔ آقائے دو جہاںؐ نے مسجدوں میں یہودیوں کی ضیافت کی تھی اور جواباً یہودیوں کی جانب سے ترتیب دی گئی دعوتوں میں بھی شرکت کی۔ رمضان المقدس کے اس مہینہ میں دعوت افطار موضوع بحث بن گیا ہے جیسے یہ کوئی عبادت یا انسانی خدمت نہیں بلکہ کوئی نزاعی مسئلہ ہے۔ ہمیں افطار کی دعوت کا اہتمام کرنے والی شخصیتوں کی ستائش کرنی چاہئے جو اللہ اور اس کے حبیب پاک محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی خوشنودی کے لیے ایسا کام بڑے خلوص کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ دعوت افطار کا پوری دنیا میں اہتمام کیا جارہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام اور مسلمان عالمی سطح پر واضح طورپر قدر کی نگاہ سے دیکھے جارہے ہیں۔ دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کے قصر شاہی یعنی وائٹ ہاؤز میں افطار کے مسلسل اہتمام سے اس دعویٰ کو تقویت ملتی ہے کہ ہماری اور ہمارے دین کی توقیر ہورہی ہے۔ امریکہ کے صدور ان افطار پارٹیوں میں بہ نفس نفیس شریک ہوتے ہیں اور ان کا یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم چاہے کسی بھی مذہب کو مانیں ہم بہرحال رب العزت ہی کے بندے ہیں۔ آقائے دو جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بین فرقہ جاتی میل ملاپ کو بڑی اہمیت دی ہے اور یہی وہ وجہ تھی کہ آپ ؐنے یہودیوں تک کی بھی مسجد میں ضیافت کی بلکہ جب مدعو یہودی آپؐ سے اسی مسجد میں اپنے طرز کی عبادت کرنے کی اجازت مانگتے تو آپ فوراً ہاں کردیتے اور وہ (یہودی) اپنے طور طریقے سے وہاں عبادت کرکے واپس لوٹ جاتے۔ جس میل ملاپ کو ،جس تبادلہ خیال کو ،اور جن ملاقاتوں کو آقا ؐ نے پسند فرمایا ہمیں یہ حق کہاں سے ملتا ہے کہ ہم ان کی نفی کریں اور ایسے اچھے مواقع کو گنوادیں جس میں دوسروں کو اپنے مذہب کی عظمتیں بتانے کا موقع ملتا ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس نے کسی غازی یا حاجی کو سامان دیا ،یا اس کے پیچھے اس کے گھر والوں کی دیکھ بھال کی یا کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروایا تو اسے بھی ان ہی کے مثل اجر ملے گا بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کچھ کمی ہوگی‘‘۔کتنی پیاری بشارت ہے کہ غازی کو سامان جہاد فراہم کرنے والے کو غازی جیسا ، حج پر جانے والے کی مالی امداد کرنے پر حج کا اور افطار کروانے والے کو روزہ دار جیسا ثواب دیا جائے گا اور کرم بالائے کرم یہ کہ ان لوگوں کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی مگر یاد رہے کہ حج و عمرہ کے لئے سوال کرنا حرام ہے اور اس سوال کرنے والے کو دینا بھی گناہ ہے۔ حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے حلال کھانے یا پانی سے کسی مسلمان کو افطار کروایا تو فرشتے ماہ رمضان کے اوقات میں اس کے لئے استغفار کرتے ہیں جبکہ جبرئیل علیہ السلام شب قدر میں اس کے استغفار کا سبب بنیں گے۔ ایک اور روایت ہے کہ جو روزہ دار کو پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اسے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض سے پانی پلائے گا اور وہ جنت میں داخل ہونے تک کبھی بھی پیاسا نہ رہے گا۔ رمضان کا یہ مقدس مہینہ ہمیں نہ صرف اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق اور بھائی چارہ کا پیام دیتا ہے بلکہ ساری انسانیت کو گلے لگانے کا درس بھی دیتا ہے۔ آج کی سچائی یہ ہے کہ ہم مسلمان آپس میں بہت بٹ چکے ہیں ، ہم نے رشتوں کے معنی ہی بدل دیئے ہیں مسلکی بنیاد پر بھائی بھائی بننے کے بجائے مذہب کی بنیاد پر بھائی بھائی بننے کا وقت آگیا ہے۔ اپنے مسلک پر عمل کرنا قطعی برانہیں ہے مگر دوسروں کے مسلک کو برا کہنا اور اس بنیاد پر آپسی رشتوں کو توڑ لینا بہت بڑی برائی ہے۔ اسلام میں تعصب اور تنگ نظری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ساری دنیا کے اللہ کے بندے عزت و توقیر کے مستحق ہے۔ ہمیں کسی کے مسلک یا مذہب کی بنیاد پر کوئی اختلاف ہوسکتا ہے لیکن کیا ہم سب کو انسان ہونے پر اختلاف ہوسکتا ہے۔ ایک غیر مسلم بھی آپ کو افطار کی دعوت دیتا ہے تو ہم بڑے اخلاص پیار و محبت کے ساتھ اس کی دعوت کو قبول کریں کیا پتہ کہ آپ کی محبت اس کے دل پر کیا اثر کرجائے۔ جو لوگ دوسروں کے غم سے غم زدہ اور دوسروں کی خوشی سے خوش نہ ہوتے ہو ںتو انہیں انسان کہلانے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ غیرمسلم پڑوسی کا بھی آپ پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ ایک مسلم کا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جنت کا تعلق صرف نماز اور روزہ ہی سے نہیں ہے بلکہ پڑوسیوں سے بھی ہے۔ آپؐ نے فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا جس کی شرارتوں سے پڑوسی محفوظ نہ ہو۔ آپ کی افطار پارٹیوں میں غیر مسلم پڑوسیوں کی شرکت آپ کی عاقبت کے لئے سونے پر سہاگے کا کام کرتی ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ اپنے دل کو نرم کرنا ہوتو اس سے بہتر فارمولہ کیا ہوگا کہ مسکین کو کھانا کھلادیں او ریتیم کے سر پر ہاتھ پھیر دیں۔ بہرحال بات افطار پارٹیوں کے اہتمام کی ہے انہیں قیامت تک جاری رہنا چاہئے۔ دعوتیں لذتِ کام و دہن کا نام نہیں ہے بلکہ یہ محبتوں کا پیغام ہے اور جب تک اس دنیا میں محبت باقی رہے گی ، ایمان باقی رہے گا، انسانیت باقی رہے گی ، ہماری آن باقی رہے گی، ہماری شان باقی رہے گی ، ہماری پہچان باقی رہے گی، دعوتوں کے ان سلسلوں کو چلتے رہنا ہوگا ، دعوتوں کے ان سلسلوں کا رکنا گویا محبت کے تسلسل کا خاتمہ ہوگا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰