[]
معصوم مراد آبادی نے کہا کہ ہمیں جب بھی ظفر بھائی کی یاد آئے گی تو ان قدروں کی یاد آئے گی، اس کمٹمنٹ کی یاد آئے گی، اس جنون کی یاد آئے گی جو اب جرنلزم سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ ظفر صاحب اسی قسم کے صحافی تھے، جو حالات حاضرہ پر صرف لکھتے نہیں تھے بلکہ وہ یہ سوچتے تھے کہ حالات کی کلائی کو کس طرح سے مروڑا جا سکتا ہے، حالات کو کس طرح بدلا جا سکتا ہے اور اس میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے۔‘‘ یہ بیان مشہور و معروف صحافی معصوم مراد آبادی نے مرحوم ظفر آغا کی یاد میں منعقد ایک تعزیتی جلسہ میں دیا۔ یہ تعزیتی جلسہ دہلی کے پریس کلب میں منعقد ہوا تھا جس کا عنوان رکھا گیا تھا ’ظفر آغا کی یاد میں‘۔
قابل ذکر ہے کہ ظفر آغا کا 22 مارچ کو انتقال ہوا تھا جس سے صحافتی طبقہ غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ آج ’پریس کلب آف انڈیا‘ اور ’دہلی یونین آف جرنلسٹس‘ کی مشترکہ کوششوں سے ان کی یاد میں جلسہ منعقد ہوا جس میں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ان میں معصوم مراد آبادی، فراز، پنکج پچوری، ونود شرما، نلنجن اور ظفر آغا کے بیٹے مونس آغا قابل ذکر ہیں۔ کئی شخصیات نے ظفر آغا کے ساتھ اپنے رشتوں اور ان کی صحافتی اقدار پر اپنے نظریات شرکا کے سامنے رکھے۔
معصوم مراد آباد نے اس موقع پر کہا کہ ’’میں بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی تعلیم الٰہ آباد یونیورسٹی میں ہوئی، اور انھوں نے وہاں پر انگریزی فراق گورکھپوری سے پڑھی۔ اس مشہور شاعر نے کہا تھا:
آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو
جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراق کو دیکھا ہے
ہمارے لیے بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہمیں جب بھی ظفر بھائی کی یاد آئے گی تو ان قدروں کی یاد آئے گی، اس کمٹمنٹ کی یاد آئے گی، اس جنون کی یاد آئے گی جو اب جرنلزم سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ جرنلزم جو پہلے ایک پروفیشن ہوا کرتا تھا، پھر یہ مشن بنا، اور اب یہ ایک کمیشن بن گیا ہے۔ اس جرنلزم کی جتنی تباہی میں نے تیس چالیس سال میں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے، اتنی کسی چیز کی نہیں دیکھی۔‘‘
ظفر آغا کے بیٹے مونس آغا نے اس موقع پر کہا کہ ’’آپ میں سے اکثر لوگ ظفر آغا کو بطور صحافی جانتے ہیں، لیکن آج میں اس بات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا کہ وہ بحیثیت انسان کیسے تھے، اور ان کے آس پاس رہنے والے لوگ کتنے خوش قسمت تھے۔ میرے والد ایک انتہائی مہربان آدمی تھے جو اپنی اچھائی کو زبان سے ظاہر نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کا عمل اس اچھائی کو ظاہر کرتا تھا۔ وہ اپنے آس پاس کے ہر فرد سے بے حد پیار کرتے تھے، چاہے وہ کالونی کا پھول فروش ہو یا دوست و احباب، اور میں بھی اس میں شامل ہوں۔‘‘
مونس آغا اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ظفر آغا مختلف نظریات کے حامل افراد کے درمیان ہر طرح کی تفریق کو ختم کرنے اور بہتر روابط کو فروغ دینے کی قابل ذکر صلاحیت کے مالک تھے۔ ان کی ہمدردانہ طبیعت اور زبان کی شیرینی نے تمام شعبوں سے جڑے لوگوں کے ساتھ ان کے بہتر تعلقات کا راستہ ہموار کیا۔ ان کے انتقال کے بعد کئی لوگ میرے پاس آئے، ان میں سے اکثر کا یہی کہنا تھا ’اب ہمیں اس طرح (اپنائیت) سے کون ڈانٹے گا؟‘ مقامی حجام سے لے کر گھریلو کام میں مدد کرنے والے لوگ، خصوصاً میں، اور پاپا کے آس پاس 50 میٹر کے دائرے میں رہنے والے لوگ بھی ان کی ’ڈانٹ‘ سے محفوظ نہیں تھے۔‘‘