[]
حیدرآباد: سپریم کورٹ جج جسٹس بی وی ناگارتنا نے منتخب مقننہ (لیجسلیچرس) کی جانب سے منظورہ بلز کو غیر معینہ مدت تک گورنروں کی جانب سے روکے رکھنے پر انتباہ دیا اس تناظر میں انہوں نے پنجاب کے گورنر کا حوالہ دیا۔
نلسار یونیورسٹی آف لا حیدرآباد میں عدالتیں اور آئین کے موضوع پر پانچویں کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے جسٹس ناگا رتنا نے اتوار کے روز یہ بات کہی۔ جسٹس رتنا نے مہاراشٹرا اسمبلی کیس کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں گورنر نے حد سے تجاوز کیا کیونکہ فلورٹسٹ کے اعلان کیلئے گورنر کے پاس مواد کی کافی کمی تھی۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت یہ صحت مندانہ رحجان نہیں ہے کہ ریاستی گورنر کے اقدامات یا ان کی کوتاہیوں کو عدالتوں میں زیر بحث لایا جائے۔ جسٹس ناگا رتنا نے مزید کہا کہ ”میرا خیال ہے کہ میں یہ اپیل کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ گورنری، سنجیدہ آئینی عہدہ ہے۔
گورنروں کو قانون کے دائرہ کار میں آئین کے تحت ذمہ داریاں انجام دینا چاہئے۔ تب ہی عدالتوں میں گورنروں کے خلاف شکایتیں کم ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر گورنروں سے یہ کرنے یا یہ نہ کرنے کو کہا جائے تو یہ بھی شرمناک چیز ہے مگر اب وقت آگیا ہے کہ گورنروں سے یہ کہا جائے کہ وہ آئین کے مطابق فرائض انجام دیں۔
ٹاملناڈؤ کے گورنر آر این روی جنہوں نے ڈی ایم کے لیڈر کے پنموڈی کو بطور وزیر حلف دلانے سے انکار کردیاتھا، کے خلاف چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس چندر چوڈ کی زیر قیادت تین رکنی بنچ نے سخت تشویش کا اظہار کیا تھا‘ کے چند دنوں بعد جسٹس ناگا رتنا کے یہ تبصرے سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے 2016 میں نوٹ بندی کے مرکزی حکومت کے فیصلہ سے اختلاف کیا کیونکہ حکومت نے 86 فیصد زیر گردش500 اور ایک ہزار روپے کے نوٹوں کے چلن کو ختم کردیا مگر اس کے جواب میں 96 فیصد کرنسی، بینکوں میں واپس ہوگئی۔
نوٹ بندی سے عوام کو درپیش پریشانیوں کے سبب انہوں نے حکومت کے فیصلہ سے اختلاف کیا تھا۔کانفرنس میں نیپال اور پاکستان سپریم کورٹس کے جسٹس بالترتیب ساپنا پردھان ملا اور سید منصور علی شاہ کو بھی سناگیا۔ تلنگانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس الوک آرادھے، نلسار کے چانسلر جسٹس رویندر بھٹ نے بھی خطاب کیا۔