جیب میں افطاری، چہرہ اداس اور آنکھوں میں آنسو!

[]

تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔‌۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی

[email protected]

قارئین کرام موضوع کچھ ایسا ہے کہ حیرت ضرور ہوگی کہ جب جیب میں افطاری کا سامان ہے تو پھر آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں ، چہرہ اداس کیوں ہے ایسے وقت میں تو دل خوش ہونا چاہئے اور چہرے پر مسرت و شادمانی کا عالم ہونا چاہئے کہ گھر والوں کے ساتھ اپنے اہل وعیال کے ساتھ افطار کرنا ہے ،، اصل میں بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو کو تحریر کی شکل دینے کی کوشش کی گئ ہے واضح رہے کہ سحری و افطار کے انتظامات ہر شخص اپنی حیثیت اور وسعت کے اعتبار سے کرتا ہے یہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ علماء کرام خطباء عظام واقعات تو بہت سناتے ہیں اور مسلمان خوب سنتا ہے مگر ان واقعات کی روشنی میں اپنا محاسبہ نہیں کرتا بلکہ ایک طرف اپنی تقریر جمانے کے لئے واقعات سنائے جاتے ہیں تو دوسری طرف صرف لطف اندوز ہونے کے لئے سنا جاتا ہے ایسے خطباء دیکھنے کو نہیں ملتے جو انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے واقعات سنائیں تو خود ان کی آنکھوں میں آنسو آجائے اور سننے والے کے اندر رقت آمیز کیفیت طاری ہوجائے جبکہ نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے جتنے احکامات دئیے ہیں پہلے ان احکامات پر عمل کیا ہے اور نہ صرف عمل کیا ہے بلکہ عمل کی انتہا کردی ہے

 

اور انتہائی کا عالم یہاں تک ہوا کہ سورہ مزمل کا نزول ہوا کہ ائے چادروں والے ائے میرے محبوب اتنا قیام نہ کرو بلکہ کچھ کمی کرو اور آج امت کا حال یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ ابھی آدھا  ہوا کہ مساجد میں نمازیوں کی تعداد بھی آدھی ہو گئی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بلند ترین اخلاق  پیش کیا ہے کہ 23 سال میں ایسا انقلاب آیا کہ اس انقلاب پر جن و ملک کو تو ناز ہے ہی خود رب کائنات نے اعلان کردیا کہ ائے میرے محبوب میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے ، تمہاری امت کے لئے اور قیامت تک کے لئے مکمل کردیا اور پسند کرلیا اب قیامت تک دین اسلام کا ہی ڈنکا بجے گا ،، یاد رہے کہ اللہ نے دین کے بارے میں کہا ہے مسلمان کے بارے میں نہیں کہا ہے کہ اب قیامت تک مسلمان کا ڈنکا بجے گا اس لئے کہ آج کا مسلمان  اور ہے،، کل کا مسلمان اور تھا،، دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے،، کل کا مسلمان جھوٹ بولنے کا تصور تک نہیں کرتا تھا اس لئے کہ جھوٹ تمام گناہوں کی جڑ ہے اور آج کا مسلمان کہتا ہے کہ جھوٹ بولے بغیر کام ہی نہیں چل سکتا نتیجہ یہ ہوا کہ آج سیاست ، ملازمت، تجارت، تعلیم وتربیت ، وعظ ونصیحت ہر جگہ جھوٹ کی عادت پڑ گئی اور ہر میدان میں ناکامیوں کا سامنا ہے ایک اسرائیل نامی ملک ہے اس کی جتنی آبادی ہے اس سے زیادہ مسلمانوں کے پاس مولوی ہیں مگر اس نے پوری قوم مسلم کے ناک میں دم کر رکھا ہے ،، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اگر کوئی حد درجہ کمزور ہے ، غریب ہے ، مظلوم ہے اسے دیکھ کر تمہارے دل میں ترس نہیں آتا تو تم نمازی، حاجی، مفکر و مقرر ، محدث و مناظر، قطب ابدال سب کچھ ہو سکتے ہو مگر نیک نہیں ہوسکتے،، اب اس پیمانے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پوری دنیا میں صرف فلسطین ہے جہاں کا بچہ بچہ خاک وخون میں تڑپ رہا ہے ، فاقہ کشی کے دہانے پر کھڑا نہیں ہے بلکہ فاقہ کشی کے دہانہ میں چلا گیا ہے بارود کے ڈھیر پر غزہ کا بچہ بچہ بھوک و پیاس سے دم توڑ رہا ہے اور عرب حکمرانوں کو رقص و سرور کی محفل سجانے سے فرصت نہیں ، روزانہ کوڑوں کے ڈھیر پر کھانا پھینکا جاتا ہے آج فلسطین کے مسلمانوں کو دیکھ کر جنہیں ترس نہ آئے یقیناً وہ سب کچھ ہوسکتاہے مگر نیک نہیں ہوسکتا,, پوری دنیا میں آج سب سے مظلوم ، کمزور ، بے یارومددگار کوئی ہے تو وہ فلسطین کا مسلمان ہے اب اہل عرب اور مسلم حکمران اپنا محاسبہ کریں کہ وہ کس زمرے میں آتے ہیں،، کل میدان محشر میں اللہ کو کیا جواب دیں گے اور حوض کوثر پر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کس منہ سے جام کوثر کا سوال کریں گے؟ راقم السطور دعا کا مخالف نہیں ہے

 

مگر ہاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے صرف دعا و معجزات کے انتظار کا حمایتی بھی نہیں ہے،، صرف دعا سے کام چل سکتا ہے تو پھر نبی پاک نے خندق کیوں کھودی، پیٹ پر پتھر کیوں باندھا، رکانہ پہلوان سے کشتی کیوں لڑی ، طویل عرصے تک گھاٹی میں کیوں رہے ، بدر کے میدان میں قدم کیوں رکھا ، فوجی دستہ کیوں ترتیب دیا یہ تمام سوالات کے جوابات یہی ہیں کہ پہلے خود نبی پاک علیہ السّلام نے تدبیر و ترتیب و عمل کی انتہا کی ہے اس کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا ،، اور آج صرف دعاؤں سے کام چلانے کی کوشش کی جارہی ہے صرف وظیفہ سے کام چلانے کی کوشش کی جارہی ہے کچھ سرکاری علماء و ائمہ سرپر رومال بدن پر جبہ و عبا پہن کر لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں مگر ان کی جرأت نہیں ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کے سامنے غزہ کے حالات کو بیان کریں اور اسرائیل کی کارروائیوں کا جواب دینے کا مشورہ دے سکیں یا مطالبہ کرسکیں مسلم حکمران دولت و عیش پرستی میں مست اور درباری علماء تمام طرح کی دنیاوی سہولیات میں مست نتیجہ یہ نکلا کہ آج 57 مسلم ممالک پوری طرح مفلوج و بے حس ہیں تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی،، افطار کا وقت قریب ہے غزہ کے روزہ دار بچے کا چہرہ گرد وغبار سے سنا ہوا ہے آنکھوں سے آنسو بہا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ یا رسول االلہ آپ کی امت نے ہمیں بھوکا پیاسا بارود کے ڈھیر پر مرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا

 

کل میدان محشر میں ہم ان کا گریبان پکڑ کر آپ کے سامنے کھڑا کرکے پوچھیں گے کہ جب ہمیں قتل کیا جارہا تھا تو تم نے ہم سے نظریں پھیر لی تھیں آخر وہ کون سی مجبوری تھی اور کیا وجہ تھی اتنا کہنے کے بعد افطار کرنے کے لئے اپنی جیب سے سامان نکالا تو کھجور نہیں ، سنترہ نہیں، سیب و انگور نہیں، انار یا اس کا جوس نہیں، حتیٰ کہ روٹی و گوشت بھی نہیں بلکہ  وہ زمین پر اگنے والی گھاس تھی جسے منہ میں ڈال کر چبایا اور پانی پی کر اللہ کا شکر ادا کیا اور نماز مغرب اداکی،، کہنے کے لئے بڑی آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ عرب والوں پر اللہ کی خاص رحمت ہے ان پر لعن و طعن نہیں کرنا چاہئے اور یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ جو جتنا بڑا ہے اس کے سر اتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی ہے اور وہ ذمہ داری نبھانے سے پیچھے ہٹ رہا ہے تو اسے دنیا میں بھی جواب دینا پڑے گا اور آخرت میں بھی اتنا ہی سخت سوال و جواب ہوگا اسی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام میں سب سے آخر میں حضرت سلیمان علیہ السّلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سب سے آخر میں حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنت میں داخل کئے جائیں گے ان میں سے ایک سر پر حکومت کی ذمہ داری تھی اور دوسرے بہت بڑے تاجر تھے وہ اتنے بڑے تاجر اور مالدار تھے کہ ابھی حال ہی میں سرچ کرنے والوں نے سرچ کیا تو آج جو دنیا کا سب سے زیادہ دولت مند ہے وہ بھی ابھی ان کے مقابے میں سات سو گنا پیچھے ہے اس شخصیت کا نام ہے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے جھوٹ بول کر نہیں ، دھوکہ دے کر نہیں اور مزدوری گھٹا کر نہیں بلکہ رسول کریم علیہ الصلاۃ و السلام کی تعلیمات کے سانچے ڈھل کر تجارت کی تھی-

 

تجارت سے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تعلیم دی کہ اس پر عمل کرکے تجارت کرنے والوں نے تجارت کی تو سامان لیکر جب اونٹوں کی قطار کو دیکھا جاتا تو آگے والا اونٹ مدینہ منورہ میں داخل ہوجاتا اور پیچھے والا اونٹ ابھی یمن کی سرحد میں ہوتا ،،آج کس کے پاس اتنی دولت ہے ؟ کس بات کا آج کے مسلمانوں کو اور مسلم حکمرانوں کو گھمنڈ ہے یاد رکھو جمعہ کی دو رکعت پڑھ کر بھاگنے والوں اس زمین پر تمہارا کوئی مددگار نہیں ہے ،، ساڑھے چودہ سو سال پہلے زکاۃ کا وہ کون سا اصول ضابطہ بنایا گیا تھا کہ پورا مدینہ منورہ اتنا مضبوط ہوگیا تھا کہ پورے مدینہ میں کوئی زکاۃ لینے والا نہیں تھا اور آج ہم اپنے ہی ملک کے مسلمانوں کی بات کریں تو آزادی حاصل ہوئے 77 سال کا عرصہ ہوجانے کے بعد بھی لاؤڈ اسپیکر سے بھیک مانگی جارہی ہے جبکہ اسلام کے اندر گداگری کی سخت ممانعت ہے لیکن افسوس کہ آج دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھیک مانگنے کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ بھی مسلمانوں کا حلیہ اختیار کرتے ہیں یہ پورے عالم اسلام کے لئے لمحۂ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے-

جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *