[]
گوہاٹی۔: چیف منسٹر آسام ہیمنتا بسواشرما نے ہفتہ کے روز ایک سے زیادہ شادیاں کرنے اور بچپن میں شادیاں کرنے جیسے طریقوں پر عمل آوری جاری رکھنے پر ریاست کے بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو نشانہ تنقید بنایا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ لوگ ریاست کے دیسی عوام سے مختلف برادری ہیں۔ وہ آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) کے ناگاؤں کے لوک سبھا امیدوار امین الاسلام کی جانب سے ایک حالیہ بیان کے بارے میں میڈیا کے سوال کا جواب دے رہے تھے۔
امین الاسلام نے کہا تھا کہ بنگالی داں مسلمانوں کی کثیر تعداد تقسیم سے پہلے آسام میں بس گئی تھی اور انہیں ریاست کی مقامی آبادی تصور کیا جانا چاہئے۔ ہیمنتا نے کہا کہ اِس برادری کے لوگ جنہیں اکثر میاں کہا جاتا ہے وہ لوگ مذکورہ طریقوں کو ترک کرنے کے بعد مقامی کے موقف کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ”میاں مسلمان“ مقامی ہیں یا نہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ اگر میاں مسلمان مقامی بننے کی کوشش کریں تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن بچپن کی شادیوں اور ایک سے زیادہ شادیوں کو روکنا ہوگا۔ انہیں بچیوں کو اسکول بھیجنا ہوگا۔
آسامی لوگ لڑکیوں کا تقابل شکتی کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہ لوگ لڑکیوں سے محبت کرتے ہیں۔ اِن لوگوں (میاں مسلمانوں) کے مقامی بننے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن مقامی بننا ہے تو آپ لوگ دو یا تین شادیاں نہیں کرسکتے۔
یہ آسامی عوام کی روایت نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ آسامی بننا چاہتے ہیں تو وہ 11 تا12 سال کی عمر میں لڑکیوں کی شادیاں نہیں کرسکتے۔ اگر وہ لوگ مقامی بننا چاہتے ہیں تو بچوں کو مدرسہ میں پڑھانے کے بجائے انہیں ڈاکٹروں اور انجینئروں کو ملنے والی تعلیم دلائیں۔
اے آئی یو ڈی ایف کے امین الاسلام نے دعویٰ کیا کہ بنگلہ بولنے والے مسلمانوں کو حکومت آسام کے مشن بسندھرا 2.0 اسکیم سے نکال دیا گیا ہے۔ اس اسکیم کے ذریعہ حکومت نے زائداز 2 لاکھ افراد کو زمین کے پٹے جاری کئے تھے تاکہ کاشت کاروں کے زیر قبضہ زمینات کو باقاعدہ بنایا جاسکے۔
شرما نے کہا تھا کہ ریاست کی مقامی آبادی کیلئے یہ قدم اٹھایا جارہا ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے قبائیلی، درج فہرست ذاتوں اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے ہوں گے جن کے پاس ابھی تک زمین کے حقوق نہیں ہیں۔ شرما نے واضح طور پر کہا تھا کہ یہ اسکیم تارکین وطن مسلمانوں کے لئے نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ شہری تو ہیں لیکن مقامی نہیں ہیں۔