رمضان المبارک کے چھٹے دن کی دعا؛ غضب الہی سے کیسے بچیں؟

[]

مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک: رمضان المبارک کے چھٹے دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں:اے معبود! مجھے اس مہینے میں تیری نافرمانی کی وجہ سے ذلیل نہ فرما اور مجھے اپنے انتقام کا تازیانہ نہ مار، اور اپنے غضب کے اسباب و موجبات سے دور رکھ، اپنے فضل و عطا اور احسان کے واسطے، اے رغبت کرنے والوں کی آخری امید۔

اللهُمَّ لا تَخْذُلْنی‌ فیهِ لِتَعَرُّضِ‌ مَعْصِیَتِکَ، وَلاتَضْرِبْنی‌ بِسِیاطِ نَقِمَتِکَ، وَزَحْزِحْنی‌ فیهِ مِنْ مُوجِباتِ‌سَخَطِکَ، بِمَنِّکَ وَایادیکَ، یا مُنْتَهی‌ رَغْبَةِ الرَّاغِبین»

آیت اللہ مکارم شیرازی رمضان المبارک کے چھٹے دن کی دعا کی شرح کچھ یوں فرماتے ہیں:

رمضان المبارک کے چھٹے دن کی دعا کے ابتدائی حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ برائیوں کی پیروی بذات خود ایک عظیم فساد ہونے کے علاوہ مزید ذلت و رسوائی کے اسباب بھی فراہم کرتی ہے۔ کیونکہ خدا ایسے شخص کی مدد کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ (کیونکہ خزلان کا مطلب نصرت و یاری کو ترک کرنا ہے)

ایک گنہگار اپنے گناہ کی وجہ سے دراصل خدا سے منہ موڑ لیتا ہے، نتیجتا ذلت و رسوائی کے ساتھ اسے ہر  طرح کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لیکن اگر کوئی شخص عقل مند اور ہوشیار ہو تو وہ اطاعت الٰہی کو اپنے لئے انعام سمجھتا ہے جو دنیا میں عزت اور سربلندی جب کہ آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔ اس کے برعکس جاہل اور نادان لوگ گناہ اور بے حیائی کو ترجیح دیتے ہیں جو کہ دنیا میں رسوائی اور آخرت میں خسارت کا باعث ہے۔ 
کیونکہ اطاعت کی وجہ سے کوئی چھوٹا نہیں ہوتا اور نہ ہی گناہ کی وجہ سے کوئی بڑا کہلاتا ہے۔ 

لہٰذا عزت حاصل کرنے کا اہم ترین طریقہ گناہ اور خدا کی نافرمانی سے دوری اختیار کرنا ہے۔ 

امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں: “اگر تم قوم و قبلیہ اور حکمران کے بغیر عزت چاہتے ہو تو خدا کی نافرمانی کی ذلت سے نکل کر اس کی اطاعت کے ذریعے عزت حاصل کرو ۔”

ہاں جو خدا کی اطاعت کی راہ پر گامزن ہو گا وہ محبوب کہلائے گا اور جو خدا کی معصیت کی راہ پر ہو گا وہ ذلیل و رسوا ہو گا۔ 

ان تعبیرات کے ذریعے انسان کو خدا کی طرف لوٹنے اور گناہ کو ترک کرنے پر آمادہ کیا جائے تاکہ گنہگار کے ماتھے سے ذلت کی سیاہی دھل جائے۔

لیکن قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں، ایمان لانے کے بعد اعمال صالحہ سے اپنے ماضی کی اصلاح کرنے والوں کو نہ صرف قبول کرتا ہے اور ان سے عذاب کو دور کرتا ہے اور انہیں گناہ کی ذلت و رسوائی سے بچاتا ہے بلکہ خدا کا خصوصی فضل و کرم بھی ان کے شامل رہتا ہے اور ان کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ کیونکہ یہ خدا کی بخشش اور رحمت کا تقاضا ہے!

دعا اور استغفار؛ عذاب الہی اور آفت کو دور کرنے کا کلیدی عنصر

بلاشبہ جب گناہ اور آلودگی انسانی زندگی پر ایک مہلک بیماری کی طرح جھپٹ پڑتی ہے اور ایمان کی روح کو کھا جاتی ہے جس کے نتیجے میں انسان اس نہج پر پہنچ جاتا ہے کہ آیات الٰہی کا صاف انکار کر بیٹھتا ہے کہ جہاں نہ کوئی وعظ و نصیحت کام آتی ہے اور نہ تنبیہ کارگر ہوتی ہے۔ ایسے مرحلے پر دردناک عذاب الٰہی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ لہذا، ہم خدا سے پناہ مانگتے ہیں: “وَلاتَضْرِبْنی‌ بِسِیاطِ نَقِمَتِکَ؛ مجھے اپنے انتقام کے تازیانے سے عذاب نہ دے۔”

جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو وہ تین حالتوں سے خالی نہیں ہے، یا تو خود اسے گناہ کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ اللہ کی طرف پلٹ جاتا ہے، یا اللہ تعالیٰ اسے “بلا” و آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ بیدار ہو جائے، یا وہ ان میں سے کسی لطف و احسان کا مستحق نہیں رہتا تو پھر خدا اسے نعمتیں دیتا ہے اور یہی تدریجی عذاب ہے۔ لہذا کثرت سے دعا مانگنی چاہیے تاکہ آفتوں کا طوفان تھم جائے اور عذاب ٹل جائے۔

شیعہ منابع میں امام علی (ع) سے اور سنی منابع میں ان کے شاگرد ابن عباس سے منقول ہے: روئے زمین پر عذاب الٰہی سے حفاظت کے دو وسیلے تھے، ان میں سے ایک (رسول اللہ کا وجود مبارک تھا) جو اٹھا لیا گیا۔ اب دوسرا وسیلہ جو رہ گیا ہے وہ صرف استغفار ہے۔ پس استغفار کرو۔

بنابر ایں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انبیاء کا وجود مبارک لوگوں کو بلیات و آفات سے بچانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے اور اس کے بعد، استغفار اور توبہ ہے جو کہ اللہ سے رجوع کرنے کا ایک اہم وسیلہ ہے؛ لیکن اگر دوسرا وسیلہ بھی اٹھا لیا جائے تو انسانی معاشروں کو ان کے گناہوں کے دردناک عذاب سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔

یہ دردناک عذاب قدرتی آفات یا تباہ کن جنگوں کی شکل میں نازل ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے اس کی مختلف  دردناک شکلیں دیکھی یا سنی ہیں۔

خدا کے غضب کی نشانیاں

بلاشبہ، انسان کو ہر اس چیز سے بچنا چاہیے جو خدا کے غضب کا سبب بنے۔ لہٰذا، چھٹے دن کی دعا میں ہم خدا کے حضور یہ عرض کرتے ہیں: “وَزَحْزِحْنی‌ فیهِ مِنْ مُوجِباتِ‌سَخَطِکَ” اور مجھے اپنے غضب کے اسباب سے دور رکھ۔

یہاں خدا کے غضب کے بعض عوامل کی طرف اشارہ کیا جانا چاہئے؛ مثال کے طور پر دنیا پرستی خدا کے غضب کا قریبی ترین عامل اور اسی طرح خدا کی رضا سے دور کرنے والا ہے۔ 

اس کی وجہ واضح ہے؛ کیونکہ دنیا بے لگام خواہشات کا مجموعہ ہے جو انسان کو ہر طرف سے گناہ کی طرف لے جاتیبہے اور خدا کے غضب اور اس کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔ یا غصہ جو انسان کے ایمان، خوشی اور وجود کی فصل کو جلا دیتا ہے اور انسانی اعصاب پر تباہ کن اثرات چھوڑتا ہے اور اس کی صحت کو خطرے میں ڈالتا ہے اور اسے روحانی اور مادی مقام تک پہنچنے سے روکتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ دنیا اور آخرت میں خدا کے غضب کی آگ کو بھڑکاتا ہے۔

اس کے برعکس حلم و بردباری کامیابی، ترقی، روح و جسم کی صحت کی کنجی اور معاشرے میں مقبولیت کا سبب ہے اور یہ خدا کی رضا اور شیطان سے دوری کا سبب ہے۔

نیز، وعدہ خلافی خدا اور لوگوں کے غضب کا سبب بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ  کا ارشاد ہے: کَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا ما لَاتَفْعَلُونَ” یہ خدا کے نزدیک بہت ناگوار ہے کہ جس پر تم خود عمل نہیں کرتے اس کی دوسروں کو سفارش کرو۔ 

دوسری طرف ایک حدیث میں ہے کہ: “خفیہ صدقہ اللہ کے غضب کو بجھاتا ہے اور جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، اسی طرح انسان کے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے!”

ایک حدیث میں ہے کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا: خوف خدا سے رونا خدا کے غضب کے سمندروں کو خاموش کر دیتا ہے۔

لہٰذا انسان کو ان گناہوں سے بچنا چاہیے جو انسان کو تباہی کے گڑھے میں ڈال دیتے ہیں اور ان عیوب سے بچنا چاہئے جو خدا کے غضب کا باعث بنتے ہیں اور لوگوں کی خوشنودی کو خدا کے غضب کے بدلے اور مخلوق کی اطاعت کو خالق کی نافرمانی کے بدلے  نہ خریدیں۔ کیونکہ یہ شرک کی ایک قسم ہے۔

خدا کی معرفت، اس کی نعمتوں کی شناخت اور شکر گزاری کا بہترین راستہ

آخر میں ہم خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: بِمَنِّکَ وَایادیکَ، یا مُنْتَهی‌ رَغْبَةِ الرَّاغِبین” تجھے تیرے لطف و احسان اور بے پناہ نعمتوں کا واسطہ اے مشتاقوں کی منتہائے آرزو۔

ایک طرف یہ ان لوگوں کی کوششوں کی طرف اشارہ ہے جو اللہ کی ذات اور صفات کی معرفت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

اسی طرح انسانوں میں شکر گزاری کے جذبے کو تقویت دینے کے لئے خدا کی نعمتوں کی شناخت اس کی حقیقی شکر گزاری کا ایک طریقہ ہے۔

 کیونکہ خدا کی نعمتیں تمام انسانی وجود کو محیط ہیں جیسے مادی، روحانی، ظاہری، باطنی، انفرادی اور سماجی نعمتیں کہ جن میں سے ہر ایک نہایت عظیم ہے۔ لہٰذا خدا کی غضب اور عذاب سے متعلق تنبیہ کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *