وراثت۔ طلاق۔ خلع۔ وصیّت اور ہبہ کے معاملات کی یکسوئی وقت کی ضرورت ہے

[]

اگر خدانخواستہ زیرِ بحث قانون (یونیفارم سیول کوڈ) منظور کرلیا جاتا ہے تو ہندوستان میں امتِ مسلمہ کے لئے کئی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ان میں سرِ فہرست مسئلہ وراثت ہوگا۔ اسلامی قانون کے مطابق عورت کا حق مرد کی نسبت نصف ہے ۔ جبکہ یونیفارم سیول کوڈ کے مطابق یہ حق مرد کے مساوی ہوگا۔

صورتِ حال تو یہ ہے کہ بیٹی کو بیٹا ‘باپ کے انتقال کے بعد وراثت سے یکسر محروم کردیتا ہے اور اس دقیانوسی اصول پر کابند ہونے کی کوشش کرتا ہے کہ ہمارے پاس یہ دستور نہیں ہے۔ گویا ان احمقوں کا دستور ماورائے شرع شریف ہے۔

آج بھی شہر کی سیول کورٹس اور اضلاع کی ضلع کورٹ میں تقسیم ترکہ کے مقدمات کی بھر مار ہے اور حصولِ انصاف کے لئے کئی دہوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔

قبل اس کے کہ یہ تلوار سروں پر گرے اپنے بیٹے بیٹیوں کو ازروئے شریعت ان کا حصہ بذریعہ ہبہ میمورنڈم دے دیا جائے تاکہ آئندہ یہ مسائل پیدا نہ ہوں۔

طلاق کے معاملات بہت پیچیدہ ہونے جارہے ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ایک وقت میں تین طلاقیں نہیں دی جاسکتیں۔ تین ماہ کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر ایک وقت میں تین طلاقیں دیدی جائیں تو گرفتاری ہوگی اور مقدمات دائر کئے جائیں گے جن میں سزائے قید ہوگی۔

لہٰذا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ طلاق کے معاملات کی بہت بہتر انداز میں یکسوئی کرلی جائے اور آپسی رضامندی کے ساتھ علاحدگی اختیار کرلی جائے۔ ورنہ طلاق کے لئے تڑپنا پڑے گا۔ مرد دوسری شادی نہ کرسکے گا کیوں کہ اس پر (BIGAMY) کا کیس دائر ہوگا۔

دوسری جانب طلاق کے حصول کے لئے عورت تڑپتی رہے گی اور طلاق کے ذریعہ علاحدگی صرف عدالت کے صوابدید پر منحصر ہوگی۔

عدالت نہیں چاہے گی کہ طلاق ہو لہٰذا ایک دو سال (Cooling Period) میں ڈال دیا جائے گا تاکہ مرد و عورت کے جذبات ٹھنڈے ہوجائیں۔

ایک دوسری مصیبت یہ ہوگی کہ عورت مرد کے مقابلہ برابر حق کے حصول کے لئے عدالت سے رجوع ہوگی۔ یہ معاملہ ایک عرصۂ دراز تک معرضِ التواء میں پڑا رہے گا ۔ کرایوں کی آمدنی عدالت میں جمع ہوگی۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *