[]
مہر خبررساں ایجنسی نے رائ الیوم کے حوالے سے خبر دی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات رمضان المبارک کے آغاز کے باوجود کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں اور صیہونیوں کی جانب سے بہت سے خدشات پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں فلسطین اور خاص طور پر غزہ اور مغربی کنارے کے حالات کی خرابی کے بارے میں حماس سے حاصل ہونی والی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اس تحریک کے رہنما یحییٰ السنوار، اور القسام بریگیڈ کے سینئر کمانڈر ایسے کسی بھی معاہدے سے مکمل طور پر انکار کرتے ہیں جس سے حماس اور فلسطینی مزاحمت کی تذلیل ہو یا لوگوں کے حالات کو نقصان پہنچے۔
ان معلومات کی بنیاد پر حماس کا مرکزی اور حتمی فیصلہ دشمن کو کسی بھی معاہدے میں اہم رعایت نہ دینا ہے۔
فلسطینی مزاحمت کے رہنماوں نے اپنے مذاکرات کاروں سے کہا ہے کہ وہ ماہ رمضان میں پیش آنے والی جنگی صورت حال اور رفح کی لڑائی سے متعلق مساوات کو مذاکرات میں لچک کے عنصر کے طور پر بالکل بھی نہ رکھیں۔ کیونکہ مزاحمتی گروہ رفح شہر پر دشمن کی کسی بھی جارحیت کی صورت میں اس کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
اس تناظر میں ذرائع کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تحریک حماس نے غزہ کی پٹی میں جو فوجی حکمت عملی اختیار کی ہے وہ فلسطینیوں کی تمام قربانیوں اور مشکلات کے باوجود دشمن پر جنگ کو مسلط رکھنا ہے۔ لہٰذا میدانی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ القسام اور مزاحمت کی دیگر عسکری شاخوں نے رمضان المبارک میں دشمن کے ساتھ جنگ کی حکمت عملی تبدیلی کرتے ہوئے چھاپہ مار کاروائیوں کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عسکری سطح پر قلیل افرادی قوت اور کمترین جنگی وسائل کے ذریعے دشمن کی فوج کے انسانی اور مادی وسائل کو زیادہ نقصان پہنچایا جاسکے۔
عسکری اعتبار سے حماس کی ٹیکٹک کا مطلب کھلے عام محاذ آرائی سے گریز کرنا اور طاقت کھوئے بغیر بعض علاقوں میں مقامی دفاع پر توجہ دینا ہے اور یہ وہی حکمت عملی ہے جو الزیتون کے محلے میں استعمال ہوئی اور سب نے اس کے نتائج دیکھے۔ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ القسام بٹالین 2 سال تک اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے بھرپور آمادگی رکھتی ہے۔
غزہ سے موصول ہونے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مزاحمتی گروہ اب بھی لڑنے اور میدانوں کو کنٹرول کرنے کی اپنی اعلیٰ صلاحیت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
یحییٰ السنوار نے مزاحمت کے سیاسی رہنماؤں کو آگاہ کیا ہے کہ آج اسرائیل اس پوزیشن پر آن کھڑا ہے جہاں مزاحمت اسے لانا چاہتی تھی۔